پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کہاں جا کر رکے گا؟


حکومت پاکستان کی جانب سے ڈیڑھ ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چوتھی مرتبہ اضافے کے بعد مہنگائی کے مارے عوام چلا اٹھے ہیں اور یہ سوال کر رہے ہیں کہ یہ سلسلہ کب رکے گا۔ عالمی منڈی میں بڑھتی قیمتوں کے درمیان اب پاکستان میں پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 248 روپے 74 پیسے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 276 روپے 54 پیسے ہو گئی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چوتھی مرتبہ اضافے کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف شرط کے تحت پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا نفاذ ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق پیٹرول پر 10، ہائی سپیڈ ڈیزل، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل پر پانچ روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد کی گئی ہے جو حکومت کے مطابق ایک ’ناگزیر فیصلہ‘ تھا جس کی وجہ تحریک انصاف حکومت کی آئی ایم ایف سے معاہدے سے روگردانی تھی۔ لیکن حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35 روپے مزید اضافہ ہونا ہے۔

رات دیر گئے اس فیصلے کے بعد عوامی ردعمل سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کی شکل میں دیکھنے کو ملا جس میں کسی نے سنجیدہ سوالات اٹھائے تو کسی نے میمز کی صورت میں حالات کی منظر کشی کی۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث کا ایک ایم پہلو قیمتوں میں اضافے کے رجحان کے مستقبل کے حوالے سے تھا۔ ایک صحافی نے صرف یہ سوال کیا کہ ’آگے کیا ہو گا؟ تین سو روپے فی لیٹر؟‘ اس سوال کے جواب میں عزیر یونس نے لکھا کہ ’معاملہ اسی جانب جا رہا تھا لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ہر چند ہفتے بعد منفی خبروں کا رجحان پیدا کرنے کی حکمت عملی کا مقصد کیا ہے؟ حکومت نے عوام پر جو بم گرانا ہے ایک ہی بار گرا لے۔ عوام کو روز روز مارنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی روز مار دیا جائے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے رات گئےاسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ’آئی ایم ایف سے میمورنڈم فار اکنامک اینڈ فنانشل پالیسی کے تحت چند اقدامات اٹھانے ہوتے ہیں جن میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے تحت قیمت میں اضافہ شامل ہے۔ مفتاح کے مطابق تحریک انصاف حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو توڑ کر 230 ارب روپے کا نقصان کیا ، ہم نے آئی ایم ایف سے کہا تھا کہ پہلے ہی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں اور ہم فی الحال اتنا اضافہ نہیں کر سکتے لیکن کچھ نہ کچھ اضافہ تو کرنا تھا۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت کیا کرنے والی ہے اور کیا اس لیوی کے تحت ہر ماہ قیمت میں اضافہ ہو گا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جب اوگرا کے سینئر ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور ترجمان عمران غزنوی سے سوال کیا گیا کہ پیٹرولیم لیوی لگانے کے فیصلے کے بعد اگلے چار سے چھ ماہ میں قیمت کتنی اوپر جا سکتی ہے تو انھوں نے کہا کہ ’قیمتیں تو عالمی منڈی کی قیمت، سیاسی صورتحال اور ڈالر ایکسچینج ریٹ سے جڑی ہیں۔ اس لیے کوئی بھی یہ پیشگوئی نہیں کی جا سکتی کہ کل پٹرولیم مصنوعات کیا قیمت ہو گی، کم ہو گی یا زیادہ ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر ڈالر کا ریٹ کم ہوتا ہے، اور عالمی مارکیٹ میں قیمت کم ہوتی ہے تو یہ ملک کے لیے اچھا ہو گا اور اگر زیادہ ہوتی ہے تو پھر مشکل صورتحال کا سامنا ہو گا۔ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت پر حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کا ہی ہوتا ہے۔

دوسری جانب وزارت خزانہ کے سابق ترجمان اور معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی ہوئی اور برینٹ کی قیمت 108 ڈالر سے 120 ڈالر فی بیرل تک گئی۔ پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے کی تیسری وجہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت پیٹرولیم لیوی کا نفاذ ہے۔

مستقبل کی بات کرتے ہوئے ڈاکٹرخاقان نجیب نے کہا کہ ’ایک امید کی کرن یہ ضرور ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں پیشرفت کی وجہ سے روپے کی قدر میں بہتری ہوئی اور برینٹ کی قیمت 108 ڈالر تک آ چکی ہے جو عالمی طور پر ڈیمانڈ کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے مطابق پیٹرولیم لیوی 10 روپے سے بڑھانی پڑے گی اور یہ فی لیٹر 50 روپے تک جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا ان دونوں عوامل کو دیکھتے ہوئے قیمتوں میں کمی کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے لیکن شاید اضافہ بھی اب بہت زیادہ نہیں ہو گا اور قیمتیں ایک مستحکم سطح پر آ جائیں گی۔

اس دوران سلمان نامی ٹوئٹر صارف نے حکومتی حمایت میں لکھا کہ لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ لیوی مفتاح اسماعیل یا کسی فرد کی جیب میں نہیں بلکہ قومی خزانے میں جا رہی ہے۔

ان کا مؤقف تھا کہ بجٹ کے ٹارگٹ حاصل کرنے اور خوشحالی لانے کے لیے لیوی لگانا ضروری تھا۔ لیکن صحافی شہباز رانا کا موقف کچھ الگ تھا۔ انھوں نے لکھا کہ اب جبکہ حکومت اپنے بجٹ میں سٹاک ایکسچینج کو آٹھ ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دے چکی ہے اور قومی اسمبلی سپیکر اور سینیٹ چیئرمین کو اپنی مرضی سے سہولیات میں اضافہ کرنے کی اجازت دے چکی ہے تو عام آدمی سے مزید کسی قسم کی قربانی نہیں مانگی جا سکتی۔

اس مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے یوسف نذر نے لکھا کہ بہت سے سرکاری حکام کو ملنے والی پنشن یا سہولیات پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا۔ عوام ہی قربانی کا بکرا بنتے ہیں۔ انعام خٹک نامی صارف لکھا کہ لوگ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے پر ہمارے یہاں بھی سڑک پر نکلتے ہیں مگر صرف ٹینکی فل کروانے، احتجاج کرنے نہیں۔‘

اس سنجیدہ بحث سے ہٹ کر سوشل میڈیا پر ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس نے اس پورے معاملے کا مذاح سے جواب دیا۔ اقرا چوہدری نے لکھا کہ یکم جولائی سے پیٹرول کی قیمت 142 روپے ہو جائے گی لیکن صرف آدھے لیٹر کی۔ شاہین اظہر نامی صارف نے ایک تباہ حال گاڑی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح قیمتیں بڑھ رہی ہیں کچھ عرصے میں گاڑیوں کی حالت کچھ ایسی ہو جائے گی۔

Related Articles

Back to top button