چلغوزوں کے جنگل کی آگ بجھانے کا کریڈٹ ایران کو کیوں ملا؟

خیبر پختونخوا کے علاقے شیرانی میں چلغوزوں کے سب سے بڑے جنگلات میں لگنے والی آگ نے قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں کی قابلیت کا پول کھول دیا ہے جو اس آگ پر قابو پانے میں ناکام رہے اور حکام کو ایران سے ایک خصوصی طیارہ بلانا پڑا جس نے آگ پر قابو پایا۔

یسد رہے کہ چلغوزے کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے کا مشن ایران کے آگ بجھانے والے خصوصی طیارے نے سر انجام دیا۔ محکمہ جنگلات کے حکام کے مطابق آگ بجھانے کی کوششوں میں یہ ایک بڑی کاوش تھی جسکے دوران اس بڑے طیارے سے متاثرہ علاقوں میں پانی کا چھڑکاﺅ کیا گیا۔

حکام کے مطابق 18 مئی سے لگنے والی آگ سے شیرانی کے جنگلات کا 36 مربع کلومیٹر علاقہ متاثر ہوا اور آگ پر اب تک 87 سے 90 فیصد تک قابو پا لیا گیا ہے اگرچہ حکومت بلوچستان نے ایران سے اس جہاز کے لیے کئی روز پہلے درخواست کی تھی لیکن یہ ضلع شیرانی میں شرغلی کے مقام پر لگنے والی آگ کے ساتویں روز پہنچا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بتایا کہ حکومت بلوچستان نے اس فائٹر جہاز کے لیے بہت پہلے درخواست کی تھی تاہم جہاز کئی روز بعد ایران سے اسلام آباد پہنچا، ایرانی طیارے نے بڑی زبردست کاوش کے ساتھ آگ پر قابو پایا ہے لہخن اگر یہ جہاز پہلے آجاتا تو شاید تین چار روز پہلے ہی آگ پر قابو پا لیا جاتا۔

امریکی ڈالر نے پاکستانی روپے کے پرخچے کیوں اڑا دئیے؟

بلوچستان کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے میں مدد کے لیے ایران کی حکومت کے بھجوائے ہوئے طیارے نے اپنا ایک ہی روز میں مکمل کر لیا۔ یہ طیارہ 23 مئی کو راولپنڈی کے نورخان ایئربیس پر اترا تھا، ایران کا یہ روسی ساختہ طیارہ طیارہ چالیس ٹن پانی لے کر پرواز کر سکتا ہے۔

اس سے قبل یہہ جہاز ترکی، آرمینیا، شام، عراق اور جارجیا میں بھی آگ بجھانے کا کام کر چکا ہے۔ پاکستان کے پاس اس جیسے چار طیارے ہیں جن کو پاکستانی فضائیہ فضا سے فضا میں ایندھن بھرنے کے کام کے لیے استعمال کرتی ہے۔ لہذا ان جہازوں کو آگ بجھانے کے لئے استعمال نہیں کیا گیا۔

شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات کی آگ پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے، حکومت بلوچستان نے تمام دستیاب وسائل کو آگ بجھانے کی کوششوں میں لگایا جبکہ اس کے علاوہ محکمے کو وفاقی اداروں کی معاونت حاصل رہی۔

آگ پر اب تک 87 سے 90 فیصد قابو پایا جا چکا ہے جبکہ اس پر مکمل قابو پانے کے لیے کوششیں جاری ہیں، مختلف علاقوں میں انگارے ہیں جنھیں بجھائے بغیر آگ پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکتا، اس آگ پر قابو پانے کے لیے حکومتی کوششوں کے ساتھ علاقے کے مقامی لوگوں کے علاوہ غیر سرکاری تنظیمیں بھی حصہ لے رہی ہیں جن میں چلغوزہ پراجیکٹ بلوچستان اور اشر شامل ہیں۔

چلغوزہ پراجیکٹ بلوچستان کے کوآرڈینیٹر یحییٰ موسیٰ خیل نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت سے متعلق ادارے ایف اے او کی ہدایات کی روشنی میں بنائی گئی یہ فائر لائن بڑی حد تک مؤثر ثابت ہوئی ہے، آگ پر 90 فیصد تک قابو پایا جا چکا ہے۔

Related Articles

Back to top button