وزیراعلیٰ الیکشن کیس،محفوظ فیصلہ تھوڑی دیر میں سنایا جائیگا

عدالت اعظمیٰ میں ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس پر سماعت مکمل کر لی گئی ہے، عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جس کو آج شام ساڑھے سات بجے سنایا جائے گا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں ووٹ کس کے کہنے پر دینا ہے، آئین میں ووٹ کیسے دینا ہے یہ بھی دیکھنا ہے، پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ووٹ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر دینا ہوتا ہے۔
پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے موقف اپنایا کہ اکیسویں ترمیم کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو آئین کے خلاف قرار دیا تھا، جسٹس جواد خواجہ کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، انھوں نے بتایا کہ جسٹس جواد خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیں، میں جسٹس جواد خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔
چودھری پرویز الٰہی کے وکیل علی طفر نے عدالت کو بتایا کہ اکیسویں ترمیم کے خلاف درخواستیں 13/4 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں، درخواستیں خارج کرنے کی وجوہات بہت سے ججز نے الگ الگ لکھی تھیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ ’قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم اس بنچ سے الگ ہو جائیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا بائیکاٹ کرنے والے تھوڑا دل بڑا کریں اور کارروائی سنیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے آٹھ ججز کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق آٹھ ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے۔ جس کیس میں آٹھ ججز نے فیصلہ دیا وہ 17 رکنی بینچ تھا، انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 سے پر فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ’گورننس اور بحران کے حل کے لیے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، دلائل کے دوران اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا، اکیسویں ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ دینے کی ہدایت کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین کے وکلاء کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا، صدر کی سربراہی میں 1988 میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی، عدالت کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی، فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیے گئے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کے لیے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی خاص وجہ ہمیں نہیں بتائی گئی، ہم نے سوال کیا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیس قانون کے تحت دی گئی، انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی سپیکر اور حکومتی اتحاد کے وکلا نے دلائل دینے سے معذرت کرلی، ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ مجھے میرے موکل نے بائیکاٹ کا کہا ہے، حکومتی اتحاد کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی دلائل دینے سے معذرت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ہمیں بھی بائیکاٹ کی ہدایت کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ عدالت اعظمیٰ نے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر دی تھی جس کے بعد حکمران اتحاد نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، گزشتہ روز عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ معاملے کی بنیاد قانونی سوال ہےکہ ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں؟چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ سنجیدہ اور پیچیدہ معاملات پر بنایا جاتا ہے اور موجودہ کیس پیچیدہ نہیں۔

Related Articles

Back to top button