کراچی میں ڈینگی سے 27 اموات، حکومت کو ہوش نہ آیا

کراچی میں ڈینگی کے وار جاری، 24 گھنٹوں کے دوران 27 افراد جان کی بازی ہارگئے، شہر میں ڈینگی سے اموات اور مثبت کیسز کی اصل تعداد بھی اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت سندھ نے ڈینگی سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار پر نظر ثانی کے بعد اعلان کیا کہ رواں سال ڈینگی سے اب تک 27 اموات ہوچکی ہیں۔ماہرین صحت نے صحت کے بگڑتے ہوئے بحران کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ڈینگی پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت نے مچھروں کی افزائش کے مقامات کو ختم کرنے کے لیے تاحال کوئی موثر اقدامات نہیں اٹھائے ہیں حالانکہ ڈینگی بخار نے گزشتہ چند ماہ کے دوران شہر میں 2 درجن سے زائد جانیں لے لی ہیں اور کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
محکمہ صحت نے گزشتہ روز ڈینگی بخار کے کل 248 کیسز کی تصدیق کی جن میں سے 109 کیسز ضلع شرقی، 65 کیسز ضلع وسطی، 20 کیسز کورنگی، 21 کیسز ضلع جنوبی، 13 کیسز ملیر، 12 کیسز کیماڑی اور 8 کیسز ضلع غربی سے رپورٹ ہوئے۔
تاہم صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہر میں ڈینگی کی تشخیص کے لیے صرف ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی مرکزی لیبارٹری روزانہ تقریباً ایک ہزار مشتبہ نمونوں کا تجزیہ کر رہی ہے جن میں سے 50 فیصد مثبت کیسز سامنے آئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال ڈینگی بخار کی وجہ سے 12 مرد اور 15 خواتین سمیت 27 مریض جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ جنوری سے اب تک 5 ہزار 492 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق یہ اموات شہر کے 3 نجی ہسپتالوں میں ہوئیں، ضیا الدین ہسپتال (نارتھ ناظم آباد کیمپس) میں 12، آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں 10 اور سیفی ہسپتال (نارتھ ناظم آباد) میں 5 اموات ہوئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار میں کم از کم 6 مزید اموات شامل نہیں ہیں، ان میں سے 3 اموات مئی اور 9 ستمبر کے درمیان لیاقت نیشنل ہسپتال میں رپورٹ ہوئیں، 2 انڈس ہسپتال میں یکم اگست اور 8 ستمبر کے درمیان رپورٹ ہوئیں اور رواں ماہ ساؤتھ سٹی ہسپتال میں بھی ڈینگی کے سبب ایک موت ہوئی۔
کورنگی، کیماڑی اور گلبرگ میں کلینک چلانے والے سینئر جنرل فزیشن ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے بتایا کہ ڈینگی بخار کی صورتحال دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے، میں اپنے کلینکس پر روزانہ جن مریضوں کا معائنہ کرتا ہوں اُن میں سے 60 فیصد مریضوں میں ڈینگی کی تشخیص ہوتی ہے۔
انہوں نے صحت کے بحران کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’شہر کے کونے کونے میں پنپنے والے مچھروں کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، خوش قسمتی سے اس بیماری کے حوالے سے عوام میں آگاہی موجود ہے ورنہ صورت حال اس سے بھی بدتر ہو سکتی تھی۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر قیصر سجاد نے محکمہ صحت کے اعداد و شمار کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوتے ہوئے کہا کہ ان دنوں جنرل فزیشنز سے جو معلومات حاصل ہورہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر کلینک میں روزانہ کم از کم 15 سے 20 مریضوں میں ڈینگی کی تشخیص ہورہی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسز کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے جو رپورٹ ہونے سے رہ گئے‘۔
انہوں نے سوال کیا کہ حکومت ڈینگی وبا سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی کیسے بنا سکتی ہے جب کہ اس کے پاس اصل اعداد و شمار ہی نہیں ہیں۔سندھ پبلک ہیلتھ لیب کی سربراہی کرنے والے مالیکیولر پیتھالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سعید خان نے کہا کہ ڈینگی کے موجودہ پیٹرن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکتوبر کے وسط تک ڈینگی کیسز میں مزید اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کورونا کی طرح نہیں ہے، مچھر کے کاٹنے سے بچ کر بیماری کو آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی کے کیسز کی تعداد کا براہ راست تعلق مچھروں کی افزائش سے ہے، یعنی مچھروں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی زیادہ لوگ بیمار ہو جائیں گے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں مچھروں کی افزائش کی روک تھام پر کوئی توجہ نہیں ہے۔

Related Articles

Back to top button