کپتان نے اپنی مقرر کردہ کے پی نگران حکومت کو کیوں مسترد کیا؟

سابق وزیر اعظم عمران خان نے جہاں اپنے منتخب کردہ نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ اور ان کی کابینہ بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انھیں اپوزیشن دوست قرار دے دیا ہے وہیں کپتان کے اہم کھلاڑی بھی نگران ٹیم کی  سیلیکشن سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں، دوسری طرف اپنے تازہ خطاب میں چئیرمین تحریک انصاف نے اپنے ہی منتخب کئے گئے نگران وزیر اعلی اعظم خان پر تابڑ توڑ لفظی حملے کر دیے اور الزام لگایا گیا کہ کابینہ میں انہوں نے وہ وزیر چنے جن کا اپوزیشن سے گہرا تعلق ہے۔

حالانکہ اعظم خان وہ ہیں جن کی کئی بار عمران خان مختلف مواقع پر دل کھول کر تعریفیں کرتے رہے ہیں اور انھیں غیر جانبدار اورفرض شناس قرار دیتے رہے ہیں  ۔۔ ایک جانب کپتان کو اعظم خان اب ایک آنکھ نہیں بھا رہے تو دوسری جانب عمران خان کے اہم کھلاڑی شوکت یوسفزئی نے ملبہ اپوزیشن لیڈر پر ڈالتے ہوئے کہا کہ نگران کابینہ اپوزیشن لیڈر نے گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر تشکیل دی ہے ۔ نگران کابینہ کو بیورو کریٹ، ٹیکنو کریٹ اور غیر جانب دار لوگوں پر مشتمل ہونا چاہیے تھا۔ اور یہ بھی کہ کابینہ کی تشکیل کے وقت صوبے کی سب سے بڑی جماعت سے مشاورت نہیں کی گئی۔

تحریکِ انصاف کے الزامات پر ردِعمل دیتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نگران وزیرِ اعلٰی کا انتخاب تحریکِ انصاف کے ساتھ مشاورت سے کیا گیا۔اور یہ نگران وزیرِ اعلٰی کا اختیار ہے کہ وہ اپنی کابینہ تشکیل دے سابق وزیرِ اعلٰی محمود خان نے اپنی مرضی سے اسمبلی تحلیل کی تھی، لہذٰا کابینہ کے انتخاب پر اُن سے مشاورت کی ضرورت نہیں تھی۔ اب نگران کابینہ کے تانے بانے وفاق سے ملتے ہیں یا نہیں اس سوال سے پہلے یہ جاننا ہو گیا کہ کابینہ میں کون کون شامل ہے ۔۔۔۔چودہ رُکنی کابینہ سے جمعرات کو گورنر حاجی غلام علی نے حلف لیا تھا۔اردو نیوز کی خبر کے مطابق نگران کابینہ میں پہلی مرتبہ قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو شامل کیا گیا ہے جن میں منظور آفریدی کو مولانا فضل الرحمٰن کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ سینیٹ آف پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی کے بھائی ہیں، 2018 میں سابق وزیرِ اعلی پرویز خٹک کے دور ِحکومت کے خاتمے پر منظور آفریدی کا نام بطور نگران وزیرِ اعلٰی سامنے آیا تھا لیکن اس پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا تھا۔

نگران کابینہ میں شامل ہونے والے سابق سینیٹر تاج آفریدی ضلع خیبر سے تعلق رکھتے ہیں اور تحریکِ اصلاحات نامی سیاسی جماعت کے بانی سربراہ حاجی شاہ جی گل آفریدی کے چھوٹے بھائی ہیں۔وہ 2009 کے سینیٹ انتخابات میں سابقہ قبائلی علاقوں سے منتخب ہوئے تھے تاہم 2021 کے سینیٹ انتخابات میں وہ معمولی فرق سے کامیاب نہیں ہو سکے تھے، حاجی شاہ جی گل کے گروپ نے 2019 میں ضلع خیبر سے صوبائی اسمبلی کی تین میں سے دو نشستیں حاصل کی تھیں۔

سابق پولیس چیف سید مسعود شاہ کو بھی نگران کابینہ میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ آئی جی خیبر پختونخوا کے علاوہ فرنٹیئر کانسٹیبلری، انٹیلی جنس بیورو اور دیگر وفاقی محکموں میں تعینات رہے ہیں۔اُن کا شمار سابق وزیرِ اعلٰی آفتاب شیر پاؤ کے قریبی ساتھیوں میں بھی ہوتا ہے۔

آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے ایک اور قریبی ساتھی اور قومی وطن پارٹی کے عہدے دار سابق سینیٹر غفران خان بھی نگران کابینہ میں شامل ہوئے ہیں۔دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سابق ممبر اور پشاور ہائی کورٹ کی سابق جسٹس محترمہ ارشاد قیصر بھی نگران کابینہ میں شامل ہیں ۔

نگران کابینہ میں مولانا فضل الرحمٰن کے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے عبدالحلیم قصوریہ بھی شامل ہیں۔ وہ 90 کی دہائی میں ڈیرہ اسماعیل خان سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔ وہ سابق سینئر بیوروکریٹ عبدالکریم قصوریہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔

سابق وزیر اعلی اکرم خان درانی کے آبائی ضلع بنوں سے سابق ممبر صوبائی اسمبلی حامد شاہ کو بھی نگران کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ حامد شاہ چند سال قبل اکرم خان درانی سے ناراض ہوکر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے تاہم بعد میں ان کی ناراضگی ختم ہو گئی تھی۔

پشاور کے معروف خدائی خدمت گار گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان عدنان جلیل کو بھی نگران کابینہ میں شامل کیا گیا ہے وہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرحوم مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر حاجی محمد عدیل کے صاحبزادے ہیں، کون کس کا کیا ہے یہ تو ظاہر ہے مگر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اب تحریک انصاف الزام تراشی سے کچھ حاصل نہ کر پائے گی۔

Related Articles

Back to top button