کپتان کے نقش قدم پر پرویز الہی نے بھی پنجاب میں گند ڈال دیا


عمران خان کے ساتھی اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی نے حمزہ شہباز شریف کے ہاتھوں وزارت اعلیٰ کے الیکشن میں اپنی یقینی شکست سے بچنے کے لیے اپنے کپتان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب میں بھی گند ڈال دیا ہے اور وزارت اعلی کا الیکشن روکنے کے لیے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ 5 اپریل کو وزیراعظم عمران خان کی لاہور آمد پر جب پرویز الٰہی نے اپنے حامیوں اراکین پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو اس میں صرف 139 لوگ شریک ہوئے چنانچہ اپنی یقینی شکست کے انہوں نے بعد عمران خان کے مشورے پر 6 اپریل کو ہونے والا وزارت اعلیٰ کا الیکشن ملتوی کرتے ہوئے 16 اپریل پر ڈالے دیا۔ لیکن جب سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا تو ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے 5 اپریل کی رات ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیر اعلی پنجاب کا الیکشن سے 6 اپریل کو شام ساڑھے سات بجے ہی ہوگا۔ دوسری جانب پرویز الہی نے جمہوری روایات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے 6 اپریل کی صبح پی ٹی آئی والوں سے انکے اپنے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کروا دی تاکہ وہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت نہ کرسکیں اور وزارت اعلی کا الیکشن ملتوی ہو جائے۔
یاد رہے کہ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں لیکن انکے وزارت اعلیٰ کا امیدوار بننے کے بعد دوست مزاری ایکٹنگ سپیکر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ چنانچہ۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بھی وفاق کی طرح ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت نے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی منظوری عمران خان سے حاصل کی جس کے بعد تحریک انصاف نے سیکرٹری پنجاب اسمبلی میں دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی۔ تحریک عدم اعتماد میاں محمودالرشید، ڈاکٹر مراد راس اور دیگر ارکان اسمبلی کے دستخطوں سے جمع کرائی گئی ہے۔ترجمان ق لیگ کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پنجاب اسمبلی میں جمع ہونے کے بعد سردار دوست محمد مزاری اسمبلی اجلاس طلب کرنے کے مجاز نہیں رہے۔
دوسری جانب دوست محمد مزاری کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن وزیر اعلیٰ کے لیے ہے کوئی میرے لیے نہیں ہے اور میں اب بھی قانون کے مطابق پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کر سکتا ہوں۔ دوسری جانب اسمبلی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدرات پینل آف چیئرمین میاں شفیع کریں گے، لیکن اجلاس 6 اپریل کو نہیں بلکہ 16 اپریل کو ہوگا۔ لیکن پرویز الہی کی زیر قیادت مسلم لیگ ق نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے اجلاس 6 اپریل کو بلانے کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے اور پنجاب اسمبلی کے تمام گیٹ بند کردیں تاکہ کوئی بھی رکن اسمبلی بلڈنگ میں داخل نہ ہوسکے۔ دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں پیدا ہونے والے آئینی بحران کے باعث دوست محمد مزاری کا تحریک انصاف سے اپنی راہیں جدا کرنے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے حوالے سے سیکرٹری اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ پرویز الہی کے ذاتی ملازم سمجھے جانے والے سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا نوٹیفیکشن 16 اپریل کا ہے، اسے ہی مانا جائے گا اور اجلاس 6 اپریل کو نہیں ہوگا۔ سیکرٹری اسمبلی کا کہنا ہے کہ سادہ کاغذ پر اجلاس کبھی نہیں بلایا گیا، اجلاس بلانے کے لیے گزٹ نوٹیفیکشن جاری کرنا پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ دوست محمد مزاری گزشتہ روز وزیر اعظم کی طرف سے گورنرہاؤس لاہور میں بلائے گئے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔ بعد ازاں رات کو انہوں نے گزشتہ رات 6 اپریل کو شام ساڑھے 7 بجے اسمبلی اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا تھا۔ قاف لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اپوزیشن دوست محمد مزاری اپوزیشن کے ساتھ جا ملے ہیں اور اپنی پارٹی کے علاوہ اپنے لیڈر عمران خان سے بھی بے وفائی کے مرتکب ہوئے ہیں لہٰذا ان کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے اور مانا نہیں جا سکتا۔ تاہم دوست محمد مزاری کا کہنا ہے کہ 6 اپریل کو وزارت اعلیٰ کا الیکشن کروانے کا فیصلہ کئی روز پہلے ہو چکا تھا جسے بدلنے کی کوشش کی گئی حالانکہ آئین کے مطابق اسے ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔
اپوزیشن ذرائع اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اگر پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی نہیں بن پاتے تو وی وزیر اعظم عمران خان کے ذریعے پنجاب اسمبلی تحلیل کروا دیں گے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور اور سابق سینئر صوبائی وزیر علیم خان نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے۔ عمران کے ہاتھوں برخاست ہونے والے سابق گورنر پنجاب نے دعوی کیا تھا کہ انہیں وزیراعظم کی جانب سے کہا گیا کہ پرویز الٰہی اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، لہٰذا آپ اجلاس ملتوی کر دیں۔ لیکن جب میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو مجھے برخاست کر دیا گیا۔
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی خالد قیوم نے کہا کہ پاکستان میں بے اصولی کی سیاست کی حالت یہ ہے کہ پہلے عمران خان پرویز الہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے ہیں اور پھر اسے سپیکر پنجاب اسمبلی بنا دیتے ہیں، لیکن جب اپنا اقتدار خطرے میں نظر آتا ہے تو اپنی ہی جماعت کے 184 اراکین کو چھوڑ کر اسی ڈاکو کو وزارت اعلی کے لیے نامزد کر دیتے ہیں جس کے ساتھ صرف دس اراکین اسمبلی ہیں۔ اُنکے بقول اُنہیں پنجاب اسمبلی قائم رہتی نظر نہیں آ رہی۔ قومی اسمبلی ٹوٹ چکی ہے، معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے۔ بات انتخابات کی طرف جا رہی ہے لہذا یہ اسمبلی بھی اِنہیں توڑنی پڑیگی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ نے قاسم سوری کی رولنگ کو غلط قرار دیا تو پھر وفاقی حکومت بھی بحال ہو جائے گی اور پنجاب میں بھی معاملات بدل جائیں گے۔

Related Articles

Back to top button