کیا خوفزدہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ عمران کا ساتھ دے گی؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی کہتے ہیں کہ جو کچھ عمران خان نے جنرل باجوہ کے ساتھ کیا اس پر کسی بھی اسٹیبلشمنٹ کو اُن سے خوف زدہ ہی ہونا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ الیکشن نہیں لڑتی لیکن اقتدار میں کوئی بھی ہو کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو اُسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی اشد ضرورت رہتی ہے اور یہ پاکستان کی وہ حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اپنے کالم میں انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان  اب بھی یہ شکایت  کرتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے اُن کی حکومت کو گرنے سے کیوں نہیں بچایا۔ جس اسٹیبلشمنٹ سے وہ اپنی حکومت کے گرنے سے نہ بچانے پر خفا ہیں اور جس اسٹیبلشمنٹ سے وہ یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ وہ اُن کیلئے موجودہ حکومت کو چلتا کرے اور فوری الیکشن کروائے وہ اسٹیبلشمنٹ اگر واقعی عمران خان سے خوف زدہ ہے تو اس کا عمران خان کو ہی سیاسی نقصان ہوگا۔  انصار عباسی کہتے ہیں کہ عمران خان کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اُن سے خوف زدہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم دوسروں کا اس بارے میں کیا کہنا ہے لیکن میری ذاتی رائے میں خان صاحب درست کہتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ واقعی اُن سے خوف زدہ ہے۔

جو کچھ عمران خان نے جنرل باجوہ کے ساتھ کیا اس پر کسی بھی اسٹیبلشمنٹ کو اُن سے خوف زدہ ہی ہونا چاہئے، عمران خان کو 2018 کے الیکشن جتوانے، اُنہیں اقتدار میں لانے، اُن کی حکومت کو کامیاب کروانے، تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے تاکہ خان مضبوط ہو، کے لیے جو کچھ جنرل باجوہ نے کیا اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان نے اُسی جنرل باجوہ کے ساتھ وہ کچھ کیا جو پہلے کبھی سنا نہ دیکھا۔ جنرل باجوہ کو غدار کہا، امریکا کے ساتھ مل کر سازش کرنے کا الزام لگایا، اپنے قتل کے سازش میں بھی جنرل باجوہ کو جوڑا، اپنی حکومت کی ناکامیوں کا ذمہ دار بھی جنرل باجوہ کو ہی ٹھہرایا۔ کون سا الزام ایسا تھا جو جنرل باجوہ پر نہ لگایا ہو۔

انصار عباسی لکھتے ہیں کہ جنرل باجوہ کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر بھی حملے جاری رکھے، سابق ترجمان فوج اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی نشانے پر رکھا۔ ان تمام الزامات کے ساتھ ساتھ جب تک جنرل باجوہ وردی میں تھے اُن سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ موجودہ حکومت کو گھر بھیج کر فوری الیکشن کروائیں تا کہ وہ دوبارہ اپنی حکومت قائم کر لیں۔

جنرل باجوہ کے جانے کے بعد موجودہ اسٹیبلشمنٹ اور آرمی چیف سے بھی یہی توقعات وابستہ رکھیں۔ اب عمران خان یہ کہتے ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ دراصل ایک ہی فرد یعنی آرمی چیف کا نام ہوتا ہے وہ موجودہ آرمی چیف پر دباو بڑھا رہے ہیں۔ کبھی اُن سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو کبھی اُن پر الزام لگاتے ہیں کہ وفاق میں برسراقتدار پی ڈی ایم حکومت اور پنجاب کی نگراں حکومت جو جو کچھ بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف کر رہی ہیں وہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ یعنی آرمی چیف کی مرضی سے ہی کیا جا رہا ہے۔

 عمران خان بار بار یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ اُن کو مارنے کو سازش اب بھی ہو رہی ہے اور اس سلسلے میں بھی وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی اشارے کرتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے فوج، سابق اور موجودہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور اس ایجنسی کے چند دوسرے اعلیٰ افسران کے خلاف ایک نہیں، دو نہیں بلکہ کئی ٹرینڈز چلائے۔انصار عباسی کے مطابق یہ سب دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے خوف زدہ کیوں نہ ہوگی؟ جو کچھ جنرل باجوہ کے ساتھ ہوا، وہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے ایک تلخ سبق ہے۔

خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کر لیں گے۔ حکومت سے نکلنے کے بعد خان صاحب یقینا ًبہت مقبول ہو چکے لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست لڑائی کا اُن کو نقصان تو ہو سکتا ہے فائدہ نہیں۔ ا گر عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو اُن کی گزشتہ ایک سال کی سیاست اور بیانیے کے تناظر میں چاہے کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ ہو، کوئی بھی آرمی چیف ہو، وہ کیسے خان صاحب پر اعتبار کرے گا؟ اُس وقت کون کس سے خوف زدہ ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا۔  خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اپنے ساتھ ملانے کیلئے خوف زدہ کرنے کی بجائے، اُسے غیر سیاسی کرنے کی اصولی لڑائی لڑیں ،جس کا سب کو فائدہ ہو گا۔

کیا انتشار اورعدم استحکام کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے؟

Related Articles

Back to top button