کیا نواز اور ترین کی تاحیات نا اہلی ختم ہونے والی ہے؟

صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 2023 کی توثیق اور باقاعدہ قانون بننے کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کو جہاں اپیل کا حق مل گیا ہے وہیں ان کی تا حیات نااہلی ختم ہونے کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے ۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت دیے گئے عدالتی فیصلوں پر نظرثانی کے لیے نیا قانون صدر مملکت کے دستخط کرنے کے بعد نافذ ہو چکا ہے۔اس قانون کے تحت جن افراد کو سزائیں ہوئی ہیں وہ سپریم کورٹ کے ایک بڑے بینچ کے سامنے ان سزاؤں کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔ جو دو بڑے نام ممکنہ طور پر اپنی سزا کے خلاف اپیل کریں گے ان میں نواز  شریف اور جہانگیر ترین شامل ہیں۔اس بل کے قانون بننے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف، سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی اور جہانگیر ترین سمیت ان تمام افراد کو اپیل کا حق حاصل ہوگیا ہے جنہیں نااہلی کا سامنا تھا۔

پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے پر نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ عوامی مفاد کے آئینی آرٹیکل 184 تین کے تحت دیے گئے فیصلوں پر اب اپیل کی جا سکے گی اور اس حوالے سے نیا قانون نافذ ہو گیا ہے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کا قانون نافذ ہو چکا ہے اور صدر مملکت کی جانب سے اُس پر دستخط کر دیے گئے تھے۔’اس قانون کا اطلاق ماضی سے ہوگا اور آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت دیے گئے عدالتی فیصلوں پر اب نظرثانی درخواست دائر کی جا سکے گی۔‘نئے قانون کے مطابق نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔ صدر مملکت نے جمعے کو نئے قانون کی منظوری دی۔گزٹ آف پاکستان میں نئے قانون کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کو سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز 2023 کا نام دیا گیا ہے۔

 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی سے متعلق قوانین منظور ہوچکے ہیں جس کا اطلاق جمعہ 26 مئی سے ہوچکا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اسی لیے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار آرٹیکل 184/3 میں نظرثانی کا قانون بنایا گیا ہے، سپریم کورٹ کے نظرثانی اختیار کو وسیع کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ بہت دلچسپ پیش رفت ہے۔ عوامی مفاد کے آئینی آرٹیکل کے تحت دیے گئے فیصلوں نظرثانی کی اہمیت اور تقاضوں کو سمجھتے ہیں اور اس پر عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں۔‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالتِ عدلیہ کی آزادی کے قانون کو لاگو کرتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 184/3 کے دائرہ اختیار کے کیسز میں نظرثانی ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ کے ہی فیصلے آرٹیکل 187 کے تحت نظرثانی کا دائرہ اختیار بڑھانے کی راہ دے رہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں حکومت نے نیا عدالتی دائرہ اختیار بنادیا، حکومت نے عدالت کے انتظامی امور میں بھی مداخلت کی کوشش کی، خوشی ہے کہ موجودہ قانون صرف 184 تھری کے بارے میں ہے، سب کو دوبارہ سوچنا ہوگا۔

واضح رہے کہ اس بل کی منظوری سے پہلے چیف جسٹس کے کسی بھی ازخود فیصلے پر اپیل کا حق نہیں تھا مگر اب اس بل کی منظوری کے بعد یہ حق بھی حاصل ہوگیا ہے۔نئے قانون کے تحت 184/3کے تحت فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی، نئے قانون کے مطابق اپیل فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ سنےگا۔نئے قانون کے تحت نظر ثانی کی درخواست کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہو گا، ماضی میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست وہی بینچ سنتا تھا جس نے وہ فیصلہ دیا ہوتا تھا۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں سپریم کورٹ کے اوریجنل جورسڈکشن میں موجود تمام فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دے دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نظرثانی کی درخواست سننے والا بینچ بنیادی کیس سننے والے بینچ سے بڑا ہوگا۔ایکٹ کے تحت نظرثانی درخواست کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، لارجر بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز سے زیادہ ہوگی۔ فیصلہ دینے والے جج نظر ثانی بنچ کا حصہ نہیں ہوں گے۔دریں اثنا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے سپریم کورٹ فیصلوں پر نظرثانی و احکامات ایکٹ 2023ء کا گزٹڈ نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ نااہلی کے حوالے سے یہ ترمیم محسن داوڑ کی جانب سے پیش کی گئی تھی جو بل میں شامل کرلی گئی جس سے نواز شریف کے علاوہ یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور از خود نوٹس کیسز کے فیصلوں کے دیگر متاثرین بھی مستفید ہوسکیں گے۔ ایسے افراد کو اب 60 روز میں ون ٹائم اپیل کا حق حاصل ہوگا۔بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد حسین مگسی نے 29 مئی کو یہ بل پیش کیا تھا۔ اس موقع پر محسن داوڑ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ کراچی کا نسلہ ٹاور بھی ازخود نوٹس کی وجہ سے گرایا گیا اور ماضی میں 184/3 یعنی ازخود نوٹس کے متاثرین کو 30 دن میں اپیل کا حق دیا جانا چاہیے۔اس موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ یہ ایک بار کی قانون سازی ہے اور اس سے کوئی پنڈورا باکس نہیں کھلے گا۔

خیال رہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کے فیصلے بھی آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر درخواستوں پر دیے گئے تھے جن پر اب نظرثانی اپیل کی جا سکے گی اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس سے قبل پارلیمنٹ کی جانب سے چیف جسٹس کے بینچز تشکیل دینے کے قانون پر عمل درآمد کو روک دیا تھا اور وہ مقدمہ تاحال زیرِ التوا ہے۔عدالت کے آٹھ رُکنی بینچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پارلیمنٹ کے منظور کیے قانون کے نفاذ کو روکا تو حکومت نے پارلیمنٹ سے نیا ترمیمی قانون پاس کرانے کے بعد

آنسوؤں سے رونے والے ابرارالحق کے لندن میں ٹھمکے

صدر مملکت کو بھیج دیا گیا تھا جس پر گزشتہ جعمے کو دستخط کیے گئے۔

Related Articles

Back to top button