کیا ٹی ٹی پی کے حملوں کا جواب حملوں سے دیا جائے گا؟

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری کے فوری بعد تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیز فائر ختم کرتے کے ملک بھر میں حملے شروع کرنے کے اعلان پر عمل درآمد شروع ہو جانے پر اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاک فوج اور ٹی ٹی پی کے مابین واقعی مذاکرات کا عمل ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے یا اب بھی کوئی پیش رفت ممکن ہے؟

کوئٹہ میں انسداد پولیو مہم کے لیے جانے والے پولیس اہلکاروں کی بس پر خود کش حملہ ٹی ٹی پی کے اعلان کے بعد ایک بڑا واقعہ سمجھا جا رہا ہے جس میں 4 افراد ہلاک اور 20 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ تحریک طالبان کے ترجمان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ تازہ احکامات کے مطابق حملہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چند روز پہلے تحریک طالبان کے شعبہ دفاع تحریک کے تمام لیڈرز کو حکم جاری کیا گیا تھا کہ ضلع لکی مروت سمیت مختلف علاقوں میں عسکری اداروں کی جانب سے آپریشنز کا جواب دینے کے لیے آپ بھی ملک بھر میں حملے شروع کر سکتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ اس سال جون میں جو غیر معینہ مدت تک کی جنگ بندی کی گئی تھی وہ بھی ختم کردی گئی ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی آمد کے ساتھ ہی سیزفائر ختم کر کے حملوں کے اعلان کا بنیادی مقصد نئی فوجی قیادت کو مذاکرات پر آمادہ کرنا ہے کیونکہ ایک طرح سے اب مذاکراتی عمل ختم ہو چکا ہے۔

طالبان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ تو کافی پہلے رک گیا تھا کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں تھی۔ مذاکرات کی یہ پالیسی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے بنائی تھی جو الٹی پڑ گئی اور تحریک طالبان کے جنگجووں نے پاکستانی قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ میں واپسی شروع کر دی جس کے نتیجے میں وہاں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔ مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کو بھی اسکا احساس تھا کہ حکومت بات چیت میں دلچسپی نہیں لے رہی اسی لیے سکیورٹی فورسز نے بھی اس عرصے میں کارروائیاں کی ہیں اور دوسری جانب شدت پسندوں کی جانب سے بھی حملے کیے گئے ہیں۔ دونوں جانب سے کارروائیاں شروع کر دی گئی تھیں لیکن اس کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ ان حملوں میں سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملے کیے گئے جبکہ فوج نے بھی مختلف مقامات پر کارروائیاں کی ہیں۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عسکری قیادت میں تبدیلی آئی ہے اور اس کے علاوہ پشاور کے کور کمانڈرز بھی تبدیل ہوئے ہیں لہٰذا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کالعدم تنظیم موجودہ حالات میں سرکار اور ریاست کی پالیسی کی وضاحت چاہتے یے کہ وہ مذاکرات چاہتے ہیں یا لڑنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان اور فوجی حکام کے درمیان اس سال مئی کے مہینے میں ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ پھر جون میں مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کا اعلان غیر معینہ مدت تک کے لیے کیا گیا تھا۔ اس اعلان کے بعد چند ماہ تو پُرامن رہے لیکن پھر ستمبر میں ایک مرتبہ پھر غیر اعلانیہ حملے شروع ہوئے۔

ان حملوں میں جہاں سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا وہاں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جن میں عام شہریوں کا جانی نقصان ہوا۔ ان میں شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نمایاں ہیں۔ اس بارے میں کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی تھی کہ یہ حملے کس نے کیے ہیں کیونکہ ان حملوں کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی تھی۔ یہاں یہ تاثُر دیا جاتا رہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ حملے کسی دوسرے گروہ نے کیے ہیں، جن میں حافظ گل بہادر گروپ کا ذکر کیا جاتا رہا لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

اس سال ستمبر کے بعد سے 130 سے زیادہ حملے ہوئے ہیں جن میں بیشتر کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے ترجمان نے قبول کی ہے۔ ان حملوں میں زیادہ تر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کالعدم تنظیم نے ان حملوں کی وجہ یہ بتائی کہ یہ انہوں نے اپنے دفاع یا انتقام میں کیے ہیں حالانکہ ان میں ایسے حملے ہوئے ہیں، جن میں ایک اہلکار کو ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی اس دوران مختلف علاقوں میں فوجی کارروائیاں کی گئی ہیں، جن میں شدت پسندوں کا جانی نقصان ہوا ہے۔ اب لگ بھگ چھ ماہ کے بعد کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی نے ایک مرتبہ پھر حملوں کا اعلان کیا ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے طالبان ریاست پاکستان سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی میں عسکری قیات کی جو پالیسیاں رہیں کیا وہی جاری رہیں گی یا ان میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ تحریک انصاف کے دور میں شروع ہوا تھا، جس کے لیے ثالثی افغان طالبان کر رہے تھے، جن میں افغان وزیر دفاع سراج الدین حقانی نمایاں تھے۔ ان مذاکرات کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کا ذکر بھی ہوتا رہا اور طالبان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ان مذاکرات کے لیے وہ بھی افغانستان آئے تھے۔

اس کے علاوہ مختلف وفود بھیجے گئے جن میں قبائلی رہنماؤں کا جرگہ، علما کا وفد اور ایک 45 رکنی وفد شامل تھا، جس میں سیاسی اور قبائلی رہنماؤں کے علاوہ اہم شخصیات شامل تھیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا، جس سے ان مذاکرات کی کامیابی کا تاثر پیدا ہوگیا تھا۔ ابھی یہ مذاکرات جاری تھے کہ اس دوران افغان طالبان کے اہم رہنما اور ان مذاکرات کے اہم رکن عمرخالد خراسانی کو افغانستان میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ان مذاکرات کے حق میں نہیں تھے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی یہ سلسلہ کچھ عرصے تک جاری رہا جب تک پشاور میں جنرل فیض حمید کور کمانڈر رہے ہیں لیکن ان کے تبادلے کے بعد ان مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا تھا۔

مسلم لیگ نواز کی اتحادی حکومت نے اس بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے جائیں یا ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان کے حوالے سے پالیسی فوجی اسٹیبلشمنٹ خود طے کرتی تھی لیکن اب اس بات کا قوی امکان ہے کہ نئی فوجی قیادت حکومت وقت کے مشورے سے نئی پالیسی ترتیب دے گی۔ ایسے میں قوی امکان ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی ختم کر کے ان کے خلاف جوابی کارروائیوں کا آغاز کر دیا جائے۔

Related Articles

Back to top button