کیا ڈاکٹر یاسمین راشد کو ”تہمینہ دولتانہ پلس“ کہنا درست ہے؟

نوے کی دہائی میں محترمہ بے نظیر جیسی قدآور اور دبنگ خاتون سیاستدان نے ملکی اور عالمی سیاست کے ہلا کر رکھ دیا تھا تاہم اس وقت ان کے علاوہ سیاست میں کوئی اور خاتون اس پائے کی نہیں تھی۔۔البتہ سیکنڈ لائن میں مسلم لیگ ن کی ذکیہ شاہنواز، تہمینہ دولتانہ، عشرت اشرف اور پیپلز پارٹی کی بیگم عابدہ حسین، بیلم حسنین اور فہمیدہ مرزا وغیرہ کے نام لئے جاتے تھے۔ یہ وہ خواتین تھیں جھنوں نے سیاست کو برتا بھی اور جھیلا بھی۔۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سیاسی موومنٹ ہوتی یا حکومتی اتار چڑھاؤ، یہ اور ان جیسی کئی خواتین مرد سیاستدانوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں۔ چند مہینوں سے جاری منہ زور سیاست کو ہی دیکھ لیں خواتین کہیں نچلی نہیں بیٹھیں۔ ویسے بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اقتدار سے کیا محروم ہوئے انھوں نے پوری قوم کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔ انصاف کی بجائے جلاؤ گھیراؤ کی تحریک شروع کرنے والی خان صاحب کی پارٹی نے نہ صرف سیاست کا مفہوم بدل دیا بلکہ بے لگام سوشل میڈیا کے ذریعے گالم گلوچ اور کردار کشی کا نیا کلچر بھی متعارف کروایا۔۔اور تو اور پارٹی کی خواتین بھی سازوسامان سے لیس میدان میں نکل آئیں۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں جو ”تہمینہ دولتانہ پلس“ بننے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی ہیں۔کبھی وہ فون پر اپنے دیرینہ دوست اور ہمدم صدر عارف علوی کے ساتھ فون پر ہمکلام ہوتے ہوئے وائرل ہو جاتی ہیں اور کبھی پارٹی ورکرز کو خان صاحب کے پیغامات پہنچاتے ہوئے سنی جاتی ہیں۔۔ریلی کی سیاست بھی وہ خوب جم کے کر رہی ہیں پھر خواہ وہ اپوزیشن جماعتیں ہوں یا ریاستی ادارے، کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ ڈاکٹر یاسمین میں کسی بھی مدعے میں جا گھسنے کی صلاحیت ضرور ہے مگر تہمینہ جیسی دلیری نہیں۔۔سیاست سے دلچسپی رکھنے والے یقیناً مسلم لیگ ن کی نڈر اور بیباک خاتون سیاستدان تہمینہ دولتانہ کو نہیں بھولے ہوں گے۔ جب میاں نواز شریف کو ”مشرف کو“ کے ذریعے اسلام آباد سے نکالا گیا تو ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کمال دلیری سے پولیس کو چکمہ دے کر اپنے شوہر سے ملنے نکلی تھیں، اس وقت تہمینہ دولتانہ ہی تھیں جو خاتون ہونے کے باوجود اس وقت کلثوم نواز کی ڈھال بنیں جب کئی مسلم لیگی رہنما بھی ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ پارٹی پر کبھی مشکل وقت آتا، تہمینہ دولتانہ سینکڑوں کے مجمعے میں بھی تنہا ڈٹ جاتیں۔ آج بھی سیاسی جماعتوں میں ایسی خواتین ہیں جو اچھے برے وقت میں اپنے لیڈروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں اور بڑے دھڑلے سےسیاست کر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 کے جنرل الیکشن میں 105 خواتین امیدواروں نے مختلف سیاسی جماعتوں کی ٹکٹس پر الیکشن میں حصہ لیا جبکہ مخصوص نشستوں کے ذریعے بھی بہت سی خواتین نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اپنا کردار ادا کیا۔ شیری رحمان، ثمینہ خالد گھرکی، شیریں مزاری، بشریٰ گوہر، شہلا رضا، حنا ربانی کھر، سائرہ افضل تارڑ، ثانیہ نشتر، زرتاج گل، سسی پلیجو، سمیرا ملک، شائستہ پرویز، شازیہ مری، عائشہ غوث پاشا، ماروی میمن اور مریم اورنگ زیب جیسی بے شمار خواتین ہیں جن کی کنٹری بیوشن کا ذکر کئے بغیر سیاست نامہ مکمل نہیں ہو سکتا؟ جیسے آج کل مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف کا بہت چرچا ہے جن کی سیاسی اڑان دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ جلد یا بدیر وہ مستقبل کی سیاست میں فرنٹ لائن پر ہوں گی!!

تحریک انصاف کے گرفتار و نظر بند کارکنوں کی فوری رہائی کا حکم

Related Articles

Back to top button