کیا ڈاکٹر IMF پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے سے بچا لے گا؟

پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ملک بہت جلد ڈیفالت کرنے والا ہے، یعنی آسان الفاظ میں پاکستان دیوالیہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار آئی ایم ایف کے پروگرام پر ہے۔ یعنی اس بار بھی اگر کوئی ڈاکٹر پاکستان کو بچا سکتا ہے تو اس کا نام آئی ایم ایف ہے۔ یاد رہے کہ ایک ملک جب اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اسے دیوالیہ قرار دیے دیا جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر ایک ملک تب دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے جب وہ اپنے بیرونی قرضے ادا کرنے کے لیے کیے گئے، عالمی معاہدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو جائے۔ اس کی ایک مثال لاطین امریکہ کے ملک ارجنٹائن کی ہے جو گذشتہ دس سالوں میں دو بار دیوالیہ ہو چکا ہے۔

اپریل 2022 میں پی ڈی ایم حکومت کے قیام کے بعد سے جاری سیاسی عدم استحکام اور تباہ کن سیلاب نے ملک کو معاشی طور پر سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہونے سے نہ صرف سرمایہ کاری متاثر ہوئی ہے بلکہ مالی خسارہ بڑھنے سے روپے کی قدر کے مقابلے میں ڈالر بھی آسمان سے باتیں کر رہا ہے، پاکستانی روپیہ اسوقت ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہے، جس کی بنیادی وجہ درآمدی بل میں اضافہ ہے جس سے ڈالر کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ دوسری جانب ملکی برآمدات میں بھی اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کے باعث جہاں تجارتی و مالی خسارہ بڑھا ہے وہیں پاکستانی زرمبادلہ کے زخائر میں بھی کافی حد تک کمی آئی ہے۔ معاشی ماہرین تجارتی خسارے میں اضافہ ملکی معیشت کے لیے خطرناک علامت قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ خسارہ جاری کھاتوں کے خسارے کو بڑھا کر شرح مبادلہ پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت کہیں سے قابل ذکر مالی امداد یا قرض نہیں مل پا رہا جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں۔

بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو آئندہ چند ماہ کے دوران بیرونی قرض کی مد میں 30 ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے، تاہم قرض کی ادائیگی کے قریب آتے ہی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی افواہوں میں بھی تیزی آ گئی ہے، ڈیفالٹ کے خدشات کے بعد معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سخت مالی حالات سے نکلنے کے لیے حکومت کو قرضوں کی ادائیگی کو مؤخر کرانے یا انہیں ری شیڈول کرانے پر دھیان دینا ہوگا۔

زرِمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر، حالیہ عالمی معاشی سست روی کے باعث درپیش چیلنجز، تباہ کن سیلاب اور ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام نے بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی کا خطرہ بڑھا دیا ہے، آئندہ تین سال میں پاکستان کے ذمے 73 ارب امریکی ڈالرز کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں ہیں اور اس وقت ملک کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر صرف سات سے آٹھ ارب امریکی ڈالر ہیں۔ گزشتہ سات برس میں بڑے بیرونی قرضے لینے اور سابقہ واجبات کی وجہ سے قرضوں کا مجموعی حجم 65 ارب ڈالر سے 130 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار کرنے کی بنیادی ذمہ داری وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر عائد ہوتی ہے جو اپنے دعوؤں کے برعکس کوئی جادو دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل سے وزارت خزانہ کا چارج لینے کے بعد سے ڈار آئی ایم ایف کے ناقد رہے ہیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اکتوبر میں پاکستان دوبارہ آئی ایم ایف سے قرض کی ڈیل کر لیتا تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے کہ ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اسحاق ڈار کو بھی سمجھ آ چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنے کے سوا پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، لیکن انہوں نے فیصلہ کرنے میں جو دو ماہ ضائع کئے اسکا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا ہوگا۔ دوسری جانب معاشی ماہرین حکومت کو اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے کئی اہم نکات پر مشورہ دیتے نظر آرہے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ قرضوں کی ادائیگی ممکن بنانے کے لیے رواں مالی سال میں پاکستان کو 28 ارب ڈالرز درکار ہیں جب کہ مالی سال 2024 میں یہ رقم بڑھ کر 32 ارب ڈالر اور 2025 میں بھی مزید 29 ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو دوست ممالک اور مالیاتی اداروں کے ساتھ قرضوں کو مؤخر کرانے کے لیے فوری مذاکرات شروع کرنا چاہئیں اور خصوصاً چین کے ساتھ پاکستان کو اپنے قریبی سیاسی تعلقات کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیے جس کا پاکستان اپنے کل قرضوں کا 30 فی صد مقروض ہے۔

سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں حکومت کو فوری طور پر چین، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کو قرضوں کو نہ صرف ری شیڈولنگ پر راضی کرنا ہوگا بلکہ ان سے مزید قرضے حاصل کرنا بھی ضروری ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو پیرس کلب کے رکن ممالک کے ساتھ قرضوں کو بھی ری شیڈول یا رول اوور کرانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں کے پاکستان کے ذمے قرضوں پر بھی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب نے معاشی مدد کے طور پر پاکستان کے مرکزی بینک میں جمع کرائے گئے تین ارب ڈالر کی مدت میں توسیع کردی ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کو ایکسٹرنل سیکٹر کے مسائل اور پائیدار معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے بطور معاونت یہ رقم اسٹیٹ بینک میں رکھوائی تھی۔ سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے خدشات سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات کی بھی ضرورت ہے جو دو ماہ سے تاخیر کا شکار ہیں۔ ان کے بقول، دوست ممالک اور دیگر مالیاتی اداروں سے ملنے والے فنڈز کو جلد از جلد یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مارکیٹ کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان کو ضروری رقم کا انتظام ہوچکا ہے۔

دودری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ معاشی اعتبار سے مشکل صورتحال ضرور ہے مگر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم روز سنتے ہیں پاکستان ڈیفالٹ ہو جائے گا؟ کیسے ہو جائے گا؟ آپ لوگ سرمایہ کاری کریں، نام نہاد مفکروں کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے ملک کا نقصان کر رہے ہیں تاہم سیاسی مقاصد کے لیے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی باتیں نہ پھیلائی جائیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کے ڈیفالٹ نہ کرنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اس نے کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا حالانکہ تاریخ میں کئی مرتبہ پاکستانی ذرمبادلہ کے ذخائر موجود ذخائر سے بھی کم رہے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے جو اس نے آئندہ چند ماہ میں ادا کرنے ہیں، وہ رول اوور ہو جائیں گے۔ یعنی ان کے ادا کرنے کی مدت میں اضافہ ہو جائے گا۔ لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر آئی ایم ایف سے دوبارہ علاج کرانے کے بعد پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے بچ جاتا ہے یا 75 برس میں پہلی مرتبہ دیوالیہ ہو جاتا ہے۔

Related Articles

Back to top button