کیا PM ہاؤس کی خفیہ ریکارڈنگز فیض جاسوس نے کروائیں؟

وزیر اعظم شہباز شریف کی پرائم منسٹر ہاؤس میں ہونے والی گفتگو لیک ہونے کے بعد حکومتی حلقے متفق ہیں کہ فیض جاسوس کے چلے جانے کے باوجود سسٹم میں اسکی باقیات بد روحوں کی صورت میں ہر جگہ موجود ہیں لہٰذا ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے سرکاری سٹاف کی بڑے پیمانے پر سکریننگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی کئی آڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد انٹیلی جنس بیورو کو تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے کیونکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں خفیہ ریکارڈنگ کے آلے نصب کیے گئے جن سے حاصل ہونے والی آڈیوز کو وائرل کیا گیا ہے۔ آئی بی کے سویلین انٹیلی جینس حکام نے اب یہ سراغ لگانا ہے کہ ریکارڈنگ کے آلے نصب کرنے والے عناصر کا تعلق کسی خفیہ ادارے سے تھا اور ان کا نیٹ ورک کن لوگوں کی مدد سے کام کر رہا یے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ ہیکرز نے وزیراعظم شہباز شریف کی پرائم منسٹر ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کا اچھا خاصہ ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت کیلئے پیش کر دیا ہے۔ فواد چودھری نے بھی اس دعوے کی تصدیق کر دی ہے۔ اس غیر معمولی صورتحال کی وجہ سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے کیونکہ اس مرتبہ لیک ہونے والی آڈیوز صرف ٹیلی فونک گفتگو کے نہیں ہیں بلکہ آمنے سامنے ہونے والی گفتگو بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔
حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ فیض جاسوس کے چلے جانے کے باوجود وزیراعظم ہاؤس اور دیگر اہم حکومتی دفاتر میں موصوف کا خفیہ نیٹ ورک اب بھی موجود ہے جو اصل میں عمران کے مفادات کے لیے کام کر رہا یے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض جاسوس اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کپتان کے کلین بولڈ ہونے کے بعد اس کے اپنے آرمی چیف بننے کا امکان بھی صفر ہو چکا ہے اور وہ خود بھی اپریل میں ریٹائر ہو کر گھر چلا جائے گا۔ دراصل فیض جاسوس کو بھی اپنے اساتذہ سابق آئی ایس آئی چیفس لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی طرح سیاست کا کیڑا ہے جو اسے ہر دم کاٹتا رہتا ہے اور بیٹھنے نہیں دیتا۔ یہ گروہ سمجھتا ہے کہ اس کا اصل کام ملکی دفاع کی بجائے سیاست کرنا ہے لہذا یہ موجودہ حکومت گرانے اور اپنی پسندیدہ حکومت لانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس لیے جیسے ہی فاض جاسوس کی کاوش کے نتیجے کوئی حکومتی سکینڈل سامنے آتا ہے تو عمران اسے اچھالنا شروع کر دیتا ہے جیسا کہ آڈیو لیکس کے معاملے میں ہوا ہے۔

یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ایسی لیک وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کے درمیان ہونے والی بات چیت تھی جس میں توقیر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ مریم نواز نے ان سے اپنے داماد راحیل منیر کو بھارت سے پاور پلانٹ کیلئے مشینری کی درآمد کرنے میں سہولت فراہم کرنے کیلئے کہا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں کی اس معاملے پر بات چیت بالمشافہ ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم ہائوس میں جاسوسی کے آلات نصب ہیں۔ لیک ہونے والی آڈیو میں توقیر شاہ کو کہتے ہوئے سنا گیا کہ اس مشینری کی درآمد میں سہولت کے باعث تنازع پیدا ہوگا۔ اس پر وزیر اعظم نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ مریم نواز کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور وہ خود بھی ان سے بات کریں گے۔ اس کے علاوہ توقیر شاہ وزیر اعظم کو بتاتے ہیں کہ مریم کے داماد راحیل کی ملکیتی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گرڈ اسٹیشن نصب کرنے کا معاملہ بھی چل رہا ہے۔ اس پر وزیراعظم شہباز شریف کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ یہ معاملہ قومی طریقے سے حل کرنا چاہئے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک اور آڈیو مریم نواز کی جانب سے وزیراعظم سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور ان کے سرکاری معاملات چلانے کے انداز پر شکایت سے متعلق ہے کیونکہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور غریب طبقہ بہت متاثر ہوا ہے۔ ایک اور آڈیو میں چچا شہباز اور بھتیجی مریم کے درمیان پرویز مشرف کی بگڑتی ہوئی صحت بارے بات چیت ہو رہی ہے۔ اس گفتگو میں کہا جا رہا ہے کہ اگر لانے والوں نے پرویز مشرف کو واپس لے ہی آنا ہے تو پھر ہمیں بھی رکاوٹیں ڈالنے کی بجائے دوسری طرح سوچنا چاہیے۔ مریم بتاتی ہیں کہ میں نے اسی لیے بڑے میاں صاحب کو بھی ایک ٹویٹ کرنے کے لیے کہہ دیا تھا جس میں انہوں نے مشرف کی ملک واپسی پر کوئی اعتراض نہ ہونے بارے بتایا۔ وزیراعظم ہاؤس سے لیک ہونے والی ایک اور آڈیو میں پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری اور اس معاملے پر نواز شریف سے مشورہ لینے پر بات کی جا رہی ہے۔ یہ گفتگو بھی ایک اجلاس کی ہے جس میں رانا ثناءاللہ اور اعظم نذیر تارڑ شہباز شریف کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی آڈیوز لیک ہونے کا صاف مطلب یہی ہے کہ اسے کسی بڑے منظم خفیہ ادارے کے اہلکاروں کی مدد سے ریکارڈ کیا گیا اور یہ لوگ کسی ایسے شخص کے لیے کام کر رہے ہیں جو موجودہ حکومت کو گرانا چاہتا ہے۔ حکومتی حلقے اس بات پر حیران ہیں کہ جب خفیہ آلات سے بچنے کے لیے وزیراعظم آفس اور انکی رہائش گاہ کی روزانہ اسکریننگ ہوتی ہے تو پھر خفیہ ریکارڈنگ کیسے ہوگی۔ بتایا جاتا ہے کہ خفیہ ڈیوائس کی تلاش کا کام انٹیلی جنس بیورو اپنے ایس او پیز کے تحت کرتی ہے کیونکہ یہی ایجنسی وزیر اعظم، ان کی رہائش گاہ اور ان کے دفتر کی سیکورٹی پر مامور ہے۔

سینئر صحافی عمر چیمہ کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کی جاسوسی کا کام کوئی پہلی مرتبہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جس وقت پاناما پیپرز کیس پر نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں کارروائی جاری تھی تب ایک جاسوس ڈرون وزیر اعظم کے رہائشی کمپاؤنڈ اور بعد میں ملحقہ عمارت میں قائم آئی بی ہیڈ کوارٹر کے چکر لگاتا تھا۔ آئی بی نے معاملے کی چھان بین کی اور خفیہ والوں پر واضح کر دیا کہ اگر اب جاسوس ڈرون دوبارہ بھیجا گیا تو اسے مار گرایا جائے گا۔ وزیر اعظم ہاوش کی جاسوسی کا معاملہ اس سے پہلے 2010 میں بھی سامنے آیا تھا۔ تب معلوم ہوا تھا کہ بعض غیر ملکی مشن اور ان کے آپریٹرز پوری وفاقی حکومت، اس کے دفاتر اور حساس تنصیبات بشمول ایوان صدر، وزیراعظم ہاوس، حتیٰ کہ دارالحکومت کے ریڈ زون میں وزارت داخلہ تک کی جاسوسی کر رہے تھے۔

انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ کہ یا تو وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے گفتگو کی ریکارڈنگ نصب شدہ ڈیوائس کے ذریعے ہوئی ہے اور یا پھر ایک جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے جو سگنلز کی مدد سے آدھے کلومیٹر کے فاصلے سے بھی گفتگو ریکارڈ کر سکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کچھ غیر ملکی مشنز اور آپریٹرز ایوانِ صدر کے گرد موجود تقریباً تمام اعلیٰ اور اہم سرکاری دفاتر کی جاسوسی کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button