ہیکر نے عمران اور شہباز کی آڈیو ریکارڈنگز کیسے حاصل کیں؟


موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور سابقہ وزیراعظم عمران خان کی وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگز کو ملک کے سب سے اہم دفتر پر ایک سنگین ترین سائبر حملے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے لیکن خفیہ ایجنسیاں اب تک یہ سراغ لگانے میں ناکام ہیں کہ یہ واردات کس نے ڈالی اور اس شخص یا ادارے کی سہولت کاری کس نے کی؟ یاد رہے کہ ایک ہیکر نے انڈی شیل نامی ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے ذریعے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی 100 گھنٹے سے زائد کی آڈیو ریکارڈنگز اس کے پاس موجود ہیں جو 30 ستمبر کو جاری کر دی جائیں گی۔ اس کے بعد ہیکر نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے نمونے کے طور پر چند آڈیوز جاری بھی کر دی ہیں جن میں سے ایک شہباز شریف اور ایک عمران خان کی ہے۔ تاہم عمران کی اپنی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ نے ان کے امریکی سازشی بیانیے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے خط کو سازش کا رنگ عمران اور اعظم خان نے مل جل کر دیا اور اصل میں اس میں ایسی کوئی دھمکی موجود نہیں تھی۔

نمونے کے طور پر آنے والی تین لیک آڈیوز کے بعد سےحکومتی سطح پر اگرچہ اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی سراغ سامنے نہیں لایا جا سکا۔ ہیکر نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس موجود آڈیو ریکارڈنگز برائے فروخت نہیں اور وہ پاکستان کا فائدہ چاہتا ہے۔ ہیکر نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ حکومت پاکستان کے نمائندے طارق فاطمی کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک اس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی گئی۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جاسوسی کرتے ہوئے آڈیو ریکارڈنگز کی گئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی ماضی میں کئی ایک واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں۔ تاہم جاسوسی کے بعد آڈیوز یا ویڈیوز پہلے کبھی لیک نہیں کی گئیں کیونکہ یہ کام ایجنسیاں کیا کرتی تھیں اور پھر یہ سب کچھ فائلوں میں محفوظ کر لیتی تھیں۔ ماضی قریب میں سابق وزیراعظم عمران خان کے موبائل فون کو اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے ہیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جولائی 2021 میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ وزیراعظم عمران خان کا پرانا نمبر بھی ہیک کرنےکی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ تحقیقات میں دیکھا جائے گا موبائل ہیک ہوئے یا نہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ پیگاسس پاناما لیکس سے بھی بڑا سکینڈل ہے۔ اس واقعہ کے بعد عمران خان گرمیوں میں وزیر اعظم آفس میں اپنے دفتر سے ملحقہ کمیٹی رومز میں اور سردیوں میں وزیراعظم ہاؤس کے لان میں ملاقاتیں اور اجلاس کرتے تھے۔ اسکے علاوہ وزیر اعظم عمران خان ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف سے بھی لان میں ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔

اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں وزیراعظم ہاؤس یہاں تک رہائشی یونٹ کی ڈرون کے ذریعے نگرانی کا واقعہ سامنے آیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دو انٹیلی جنس اداروں کی باہمی مخاصمت کا نتیجہ تھا۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں بھی وزیر اعظم ہاؤس کی جاسوسی کی کوششیں ہوئیں۔ اس حوالے سے تب کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں غیر ملکی سفارت خانے ریڈ زون میں واقع ہر اہم دفتر میں ہونے والے اجلاسوں کو بگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہم اسے روکنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ انٹیلی جنس بیورو حکام کے مطابق یوسف رضا گیلانی کے دور میں ان کے گھر دفتر کے کونے کونے کو متعدد مرتبہ ڈی بگ کیا گیا تھا۔ ان کے دور حکومت میں دو مرتبہ وفاقی کابینہ کا اجلاس کچھ گھنٹوں کے لیے ملتوی کیا گیا کیونکہ آئی بی نے کچھ ایسی شعاعوں کا پتہ لگایا تھا جو کابینہ روم سے آواز کیچ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ بعد ازاں انھیں ڈی کوڈ کرکے متعلقہ ملک کو آگاہ کر دیا گیا تھا جس کے سفارت خانے سے یہ کوشش کی جا رہی تھی۔

اس سے قبل کی بات کی جائے تو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں ایسی کئی کوششیں ہوئیں لیکن بی بی نے انھیں سیاسی طریقے سے ہینڈل کرکے ناکام بنایا۔بے نظیر کی قریبی ساتھی ناہید خان نے بتایا کہ ’یہ سب کچھ تو 1947 سے ہو رہا ہے اور وزیراعظم تک کو نہیں چھوڑا جاتا۔ یقیناً بے نظیر کی گفتگو بھی ٹیپ کی جاتی تھی اور ان کو اس کا علم بھی تھا لیکن وہ یہ بات کسی دوسرے سے شیئر نہیں کرتی تھیں حتیٰ کہ اپنے قریبی لوگوں سے بھی نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بے نظیر کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ ہر میٹنگ اپنے دفتر میں کرتی تھیں اور میٹنگ کے دوران انتہائی فارمل رہ کر بات کرتی تھیں۔ وہ کوئی بھی ایسی بات کرنے سے گریز کرتی تھیں جن کے بعد میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‘ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’بے نظیر نے کبھی بھی وزیر اعظم ہاؤس یا آفس کے لان میں کوئی ملاقات یا اجلاس منعقد نہیں کیا تھا۔‘

یاد رہے کہ پاکستان میں وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کی سکیورٹی کی ذمہ داری انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی کے پاس ہے۔ اس کی سکیورٹی کے لیے جدید ایس او پیز لاگو کیے جاتے ہیں۔ کم از کم دو وزرائے اعظم کی سکیورٹی ٹیم میں شامل رہنے والے آئی بی کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیراعظم کی فزیکل سکیورٹی کے ساتھ ساتھ رہائش گاہ، دفتر، گاڑیوں کے علاوہ سائبر سکیورٹی کا اپنا نظام ہے اور ہر ایک کے لیے الگ الگ ٹیمیں موجود ہوتی ہیں جو ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کام کرتی ہیں۔

ان کے مطابق ’ہر اہم ملاقات سے پہلے دفتر اور کمیٹی روم جبکہ ہر سفر سے پہلے گاڑی کی ڈی بگنگ کی جاتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میٹل یا دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کا پتہ چلایا جا رہا ہے لیکن بعض ڈیوائسز ایسی بھی ہوتی ہیں جو کسی ریکارڈنگ ڈیوائس یا کیمرہ وغیرہ کی تلاش میں مدد دیتی ہیں۔ اس لیے ان کے ذریعے بھی مکمل جانچ کی جاتی ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم ہاؤس یا وزیراعظم آفس میں آنے والے ہر فرد سے موبائل فون باہر ہی جمع کر لیے جاتے ہیں اور عملے کے جن افراد کو سیکرٹریٹ میں موبائل فون لے کر جانے کی اجازت ہوتی ہے ان میں سے اگر کسی کو وزیراعظم کے دفتر میں کسی اجلاس کے لیے جانا ہو تو انھیں اپنا فون باہر چھوڑنا پڑتا ہے۔ جامہ تلاشی اور سکیورٹی دروازوں کا بھی تہہ در تہہ نظام موجود ہے۔‘

Related Articles

Back to top button