ایم کیو ایم نے بھی کپتان کو چھوڑنے کی تیاری شروع کر دی؟

اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں عروج پر پہنچنے کے بعد اب قومی اسمبلی میں 7 نشستیں رکھنے والی حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے بھی عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کے واضح اشارے دینا شروع کر دیے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کی جانب سے 2 مارچ کو وزیر اعظم پر ہونے والی تنقید کے بعد یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز پارٹی ایم کیو ایم کپتان کے اقتدار کی کشتی کو ڈوبتا دیکھ کر جلد حکومتی اتحاد سے نکل جائے گی۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر ایم کیو ایم نے کپتان کو چھوڑ دیا تو متحدہ اپوزیشن کی کپتان مخالف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ اپوزیشن اتحاد نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ اسں نے عدم اعتماد کی تحریک تیار کر لی ہے جسے آئندہ چند روز میں دائر کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کی قیادت بھی اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد سیاسی طور پر کافی سرگرم نظر آتی ہے اور بار بار لاہور میں قاف لیگی قیادت سے ملاقاتوں میں مصروف ہے۔
ایم کیو ایم کے کنونئیر خالد مقبول صدیقی نے اب اپنا حکومت مخالف بیانیہ آگے بڑھاتے ہوئے 2 مارچ کے روز واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ایم کیو ایم کی طرح وزیر اعظم کو بھی طے کر لینا چاہیئے کہ ان کا حکومت میں رہنا ضروری نہیں یے، انہوں نے کہا کہ حکومت کے برسراقتدار رہنے سے زیادہ ضروری عوام کا زندہ رہنا ہے جنہیں ہوشربا مہنگائی نے جیتے جی مار دیا ہے۔ مرکز میں حکومت کی اہم اتحادی جماعت کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی کا بڑھنا سچ ہے لیکن پاکستان میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی قوت خرید بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو بہانے بازی کرنے کی بجائے عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے مہنگائی پر قابو پانا چاہیے تاکہ جو طبقہ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے، اس کی زندگی میں آسانی لائی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس لینے کی بجائے جو لوگ کھرب پتی ہیں ان سے ڈائریکٹ ٹیکس لیا جائے، انکا کہنا ھا کہ وزیر اعظم نے بھی تو وعدہ کیا تھا تو انہیں ہمت دکھانی چاہیئے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا عوام کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اب حکومتی اتحادی جماعت ہونے کے ناطے ایم ایم کے منتخب اراکین کے لئے لوگوں کا سامنا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے لہذا اب حکومتی اتحاد کا حصہ رہنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی طرح وزیر اعظم کو بھی طے کر لینا چاہیئے کہ ان کا حکومت میں رہنا ضروری نہیں، بلکہ عوام کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ انکا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ حکومت بنانے اور ہٹانے کے لئے تبدیلی نہیں بلکہ متوسط طبقے کو اوپر لانے کے لئے تبدیلی لانا چاہتی ہے، انہون نے سوال کیا کہ کیا موجودہ حکومت کی تبدیلی کے بعد آئین پاکستان میں تبدیلی ہوگی یا کوئی ایسا فیصلہ ہوگا کہ دیہی، شہری، علاقائی سطح پر جمہوریت کے تحت بلدیاتی نظام ہوگا جس کے ثمرات نچلی سطح پر منتقل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن سے بھی ملے ہیں اور پوچھا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کیا کریں گے، اسی طرح ہم عمران خان سے بھی پوچھ رہے ہیں کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد کیا تبدیلی آئی اور کیا عوام کی حالت زار بہتر ہوئی ہے یا مزید بگڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے ہر اچھے یا برے عمل میں اسکے ساتھ نہیں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہم حکومت نہیں بلکہ جمہوریت کو بچانے کے لئے حکومتوں کے ساتھی بنے تھے۔ خالد مقبول نے دعویٰ کیا کہ حال ہی میں ایم کیو ایم کو پیشکش ہوئی کہ وفاقی کابینہ میں ایک اور وزیر شامل کروا لیں لیکن ہم نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم متوسط طبقے کی سیاست کرتی ہے، ہم نے جاگیر داروں، پیشہ ور سیاستدانوں ، سرمایہ کاروں کی بجائے عام آدمی کو لیڈر بنا کر ایوانوں میں بھیجا ہے، ایم کیو ایم ملک کے گلے سڑے نظام کو تبدیل کرناچاہتی ہے۔
تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے عمران خان کو چارج شیٹ کرنے کے بعد کوئی بڑا فیصلہ سامنے آتا ہے یا الطاف حسین کی بنائی ہوئی جماعت اسی تنخواہ پر نوکری کرتی رہے گی۔

Related Articles

Back to top button