پشاور کی اہم ترین عسکری شخصیت دوبارہ خبروں میں کیوں؟


وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے پشاور کی ایک اہم ترین عسکری شخصیت کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں کے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے مولانا فضل الرحمان کا یہ دعویٰ مشکوک ہوگیا ہے کہ ادارہ نیوٹرل ہو چکا ہے۔
اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور کی اہم ترین عسکری شخصیت کا فوکس اس وقت تحریک انصاف کے باغی اراکین کے علاوہ گجرات کے چوہدری بھی ہیں جن سے وہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے ذریعے مسلسل رابطے میں ہیں اور مذاکرات میں مصروف ہیں۔ بتایا گیا یے کہ چند روز پہلے صادق سنجرانی نے چوہدری برادران سے لاہور میں ملاقات کے دوران انہیں پشاور کی اہم عسکری شخصیت کا یہ پیغام پہنچایا کہ وہ ڈٹ کر عمران خان کے ساتھ کھڑے رہیں چونکہ "جلد ہی ہم سب کا اور بھی اچھا وقت شروع ہونے والا ہے”۔ بتایا جاتا ہے کہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والے گجرات کے چوہدری چونکہ وزیراعظم سے زیادہ بھائی لوگوں کا اعتبار کرتے ہیں اس لئے لیے وہ اچھے مستقبل کی امید میں اب بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پشاور کی اہم ترین عسکری شخصیت نے صادق سنجرانی کے ذریعے وزیراعظم کو یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ کا ایک بھی رکن قومی اسمبلی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ تاہم اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا وقت آئے گا تو طاقتور ترین عسکری سخصیت کا اشارہ سب سے موثر ثابت ہوگا کیونکہ فوج کے ادارے میں چین آف کمانڈ کے تحت معاملہ چلتے ہیں۔
دوسری جانب سینئر صحافی انصار عباسی نے روزنامہ جنگ کے لیے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے پشاور میں حال ہی میں تعینات کیے جانے والے ایک شخص کی جانب سے اپوزیشن ارکان سے رابطہ کرکے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام کرانے کے حوالے سے باتوں کو افواہیں قرار دیا یے۔ انصار عباسی کے رابطہ کرنے پر فوجی ترجمان نے یہ ہوشربا دعویٰ کیا کہ انکا ادارہ نہ تو سیاست میں ملوث ہے اور نہ ہی مسلح افواج کا کوئی ملازم ایسا کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پشاور کی شخصیت کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے کے حوالے سے افواہوں بارے اپنی گزشتہ پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی باتوں سے گریز کرنا چاہئے۔ ہمارے ادارے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ادارے کا کوئی شخص وہ کام نہیں کر سکتا جیسی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ جسٹس کے حوالے سے گفتگو کی جارہی ہے اسے پاکستانی تاریخ کا سب سے زیادہ سیاسی جرنیل قرار دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں نون لیگ کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر پشاور میں تعینات ایک شخص اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی سے رابطہ کر رہا ہے تاکہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام کرائی جا سکے۔ نون لیگ نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پارٹی کے پاس اُس شخص کا نام سامنے لانے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔
تاہم اس والے سے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور نواز لیگ کے موقف میں فرق نظر آتا ہے کیونکہ 3 مارچ کو مولانا نے کہا تھا کہ ادارہ نیوٹرل ہو چکا ہے۔ مولانا نے یہ بھی کہا تھا کہ ادارے نے اُس شخص کے انفرادی اقدام کا نوٹس لیا ہے جس کا حوالہ نون لیگ نے اپنی پریس ریلیز میں دیا تھا۔ یاد رہے کہ اپنی گزشتہ پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر سے جب نواز شریف سے کسی ڈیل کے امکان بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسی افواہیں پھیلانے والوں سے پوچھیں کہ اس ڈیل کی تفصیلات کیا ہیں اور وہ کس بنیاد یا شواہد کی بنیاد پر ڈیل کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص اس معاملے پر بات کرتا ہے تو میں اُس سے درخواست کرو ں گا کہ اُن سے پوچھیں ڈیل کون کر رہا ہے، اس کی تفصیلات کیا ہیں، ڈیل کے حوالے سے شواہد کیا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا اور یہ بات بھی دہرائی کہ اگر کوئی شخص ایسی باتیں کر رہا ہے تو اس سے ڈیل کی تفصیلات پوچھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ میری رائے میں مجھے یقین ہے کہ یہ صرف بے بنیاد باتیں افواہیں ہیں اور ہم اس پر بات نہ کریں تو ملک کیلئے بہتر ہو گا۔ اسی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا تھا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسائل نہیں ہیں، انہون نے یہ دعوی بھی کیا کہ مسلح افواج حکومت کے ماتحت ہیں اور حکومت کی ہدایت کے مطابق ہی کام کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے صحافیوں سے بھی اپیل کی تھی کہ ایسے مباحثوں سے اسٹیبلشمنٹ کو دور رکھا کریں اور اس پر بحث نہ کریں۔

Related Articles

Back to top button