ادریس خٹک کو برٹش خفیہ ایجنسی MI6 کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا

ایک سویلین ہونے کے باوجود کورٹ مارشل کی کارروائی کا سامنا کرنے والے انسانی حقوق کے معروف کارکن ادریس خٹک کو اب برطانوی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس بات کا انکشاف عدالتی کارروائی کے دوران تب ہوا جب وزارت دفاع کے وکیل نے یہ الزام عائد کیا کہ ادریس خٹک برطانیہ کی خفیہ انٹیلی جنس سروس کے ایک اہلکار کو پاکستان میں ہونے والی فوجی کارروائیوں سے متعلق ‘سرکاری راز’ فراہم کرتے تھے۔ چنانچہ پشاور ہائی کورٹ نے ادریس خٹک کے وکیل کی جانب سے دائر کورٹ مارشل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ اس کیس کی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت سماعت جاری رکھی جائے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر راشد خان اور جسٹس سید ارشاد علی پر مشتمل بینچ نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے چلنے والے مقدمے میں اویس خٹک کی جانب سے اپنے بھائی ادریس خٹک کے لیے دائر درخواست کو خارج کردیا۔ ادریس کے بھائی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک سویلین ہونے کے ناطے ادریس خٹک پر فوج کا کورٹ مارشل کا قانون لاگو نہیں ہوتا، درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اس غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی مقدمے کی سماعت کو غیر قانونی قرار دے۔ پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹ میں مقدمہ درج ہے جو کہ غیر آئینی ہے کیونکہ ایک سویلین کے خلاف ملٹری کورٹ میں مقدمہ درج نہیں ہو سکتا۔ تاہم پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید اور جسٹس ارشد علی پر مشتمل بنچ نے ادریس خٹک کی درخواست مسترد کردی.
دوسری طرف ادریس خٹک کے وکیل کا کہنا ہے کہ اگر جسٹس وقار احمد سیٹھ زندہ ہوتے تو عدالت کا فیصلہ مختلف ہوتا. یاد رہے کہ اس سے پہلے جب پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی تھی تو اس مقدمے کی سماعت مرھوم چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس ناصر محفوط کر رہے تھے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 15 اکتوبر 2020 کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا عمل معطل کر دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک اس درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا ادریس خٹک کے خلاف منگلا کی فوجی عدالت میں چلائی جانے وسلی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی روک دی جائے اور صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے۔
یاد رہے کہ انسانی حقوق کے معروف کارکن ادریس خٹک کو 13 نومبر 2019 کو صوابی کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا اور انہیں کئی مہینوں تک قید میں رکھا گیا تھا۔ بعد میں وزارت دفاع نے انکشاف کیا کہ ادریس خٹک پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 2 (1) (ڈی) کے تحت فوجی حکام کی تحویل میں ہیں جسے سرکاری راز ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر درخواست گزار نے نیشنل پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری اور اپنے بھائی کی مبینہ غیر قانونی نظربندی کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور جب فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے ان کے ٹرائل کی اطلاع عام ہوئی تو فوری درخواست دائر کردی گئی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں اس وقت کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں ایک ہائی کورٹ بینچ نے اس مقدمے کی سماعت روک دی تھی اور اس درخواست پر جواب طلب کرنے کے لیے وزارت دفاع سمیت جواب دہندگان کو نوٹس جاری کیا تھا۔ درخواست پر اپنے تفصیلی فیصلے میں بینچ نے ان الزامات کو دوبارہ عائد کیا جس کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے زیر حراست ملزم پر مقدمہ چلایا تھا، اس پر سرکاری راز ایکٹ کے تحت آٹھ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اب ادریس ختک پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کے ایجنٹ ثابت ہوئے ہیں۔ الزام میں کہا گیا ہے کہ خٹک 2009 میں ایم آئی 6 کے ایک عہدیدار مائیکل سیمپل سے رابطے میں تھے اور انہیں باجوڑ، سوات اور جنوبی وزیرستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں فوجی کارروائیوں سے متعلق مختلف معلومات فراہم کرتے تھے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبد الطیف آفریدی، ساجد آفریدی اور طارق افغان سمیت وکلا کا ایک پینل درخواست گزار کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں پیش ہوا اور مؤقف اختیار کیا کہ زیر حراست فرد ایک شہری ہے جس نے نہ تو مسلح افواج کے کسی رکن کے ساتھ مل کر کوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی وہ آرمی ایکٹ کے تابع ہے لہذا اس پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے مقدمہ غیر قانونی ہے۔ ان وکلا نے اصرار کیا کہ زیر حراست شخص کے خلاف الزامات سرکاری رازوں کے انکشاف کے مترادف نہیں ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ حراست میں لیے گئے شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ ایم آئی 6 کے عہدیدار مائیکل سیمپل پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کے داماد ہیں اور ملک میں موجود ہونے کے باوجود اس کیس سے نہیں جوڑے گئے ہیں۔
دوسری طرف ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر جاوید نے موقف اختیار کیا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے پاس فوجی ایکٹ کے تحت خصوصی دائرہ اختیار ہے جس میں نہ صرف فوجی اہلکار بلکہ ان تمام افراد کا احاطہ کیا جا سکتا ہے جو اس ایکٹ کے تابع ہیں۔ تاہم بینچ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ زیر حراست شخص پر سرکاری راز ایکٹ کے تحت اور آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 (1)(d)(ii) کے تحت الزامات عائد کیے گے تھے۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 (4) کے ساتھ سیکشن 2 (1) (d) کو پڑھا جائے تو ان دفعات کا سرکاری راز ایکٹ کے تحت فراہم کردہ مقدمے کی سماعت کے طریقہ کار پر زیادہ اثر پڑتا ہے لہٰذا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل زیر حراست ملزم کے ٹرائل کا اہل ہے۔
ادریس خٹک کے وکلا کے اس موقف کا جواب دیتے ہوئے کہ جواب دہندگان کی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ ایم آئی 6 کے مبینہ ایجنٹ کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی، بینچ نے فیصلہ دیا کہ غلام عباس نیازی کے مقدمے میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے وضع کردہ قانون کے پیش نظر اس معاملے میں کچھ وزن ہے البتہ کیونکہ استغاثہ ابتدائی مرحلے میں ہے اور ہمارے سامنے کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں ہے کہ زیر حراست ملزم کو جان بوجھ کر استغاثہ نے نشانہ بنایا ہو اور مائیکل سیمپل کی پاکستان میں دستیابی کے باوجود اس کے خلاف مقدمہ نہیں چلا گیا، لہذا مقدمے کی سماعت مکمل ہونے دی جائے جس کے بعد ملزم مناسب فورم پر یہ سوال اٹھا سکتا ہے۔ بینچ نے اپنے فیصلے کے جواز میں سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں، خاص طور پر ایف بی علی کیس (پی ایل ڈی 1975 ایس سی 506) کا حوالہ دیا ہے۔ ادریس خٹک کے وکلاء نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اظہار عدم اطمینان کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ اگر جسٹس وقار احمد سیٹھ زندہ ہوتے تو انہیں یقینا انصاف مل جاتا۔
یاد رہے کہ ادریس خٹک نے روس سے اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ اُن کی تحقیق کا ایک بڑا حصہ سابق فاٹا، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد رہے ہیں جبکہ وہ سماجی کارکن کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں وہ روس سے فارغ التحصیل طلباء کی تنظیم ’ایلومینی ایسوسی ایشن آف ریشیا گریجیویٹ ان پاکستان‘ کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ وہ اکثر اوقات روس کے سفارت خانے میں مختلف تقریبات میں جاتے رہتے تھے۔ وہ تعلیم کی غرض سے روس میں دس سال مقیم رہے اور تعلیم مکمل کر کے واپس آنے کے بعد وہ کبھی بھی دوبارہ روس نہیں گئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button