کپتان کے ساتھ اسکے میڈیا مخالف پیکا قانون کی بھی چھٹی


عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے آخری دن اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کوغیرآئینی قرار دینے کے فیصلے نے صحافتی حلقوں کے اس موقف کی توثیق کردی ہے کہ یہ کالا قانون صرف میڈیا کی زبان بندی کے لیے لایا گیا تھا۔ یوں زیراعظم عمران خان کی چھٹی سے ایک روز پہلے ان کے لائے گئے ڈریکونین پیکا قانون کی بھی چھٹی ہوگی۔ عدالت نے پیکا آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دے کر اس کے تحت کی جانے والی تمام کارروائیاں بھی غیر آئینی قرار دے دی ہیں۔ عدلیہ نے وفاقی حکومت کو یہ موقع بھی دیا تھا کہ وہ خود یہ آرڈیننس واپس کر لے، لیکن حکومت اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اپنے کپتان عمران خان کی طرح مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا دونون کو بیڑیاں پہنانے پر مصر رہے۔
جمعے کے روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا آرڈیننس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے بعد چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ پیکا آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ ہائی کورٹ نے ترمیمی آرڈیننس کو اظہار رائے کی آزادی کے خلاف بھی قرار دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت سے توقع ہے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے گی اور ہتک عزت آرڈیننس 2002 کو مؤثر بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو مناسب قانون سازی کی تجویز دے۔عدالت کے مطابق پیکا ترمیمی آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اور 19-A کی خلاف ورزی میں نافذ کیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ہتک عزت کو قابل گرفتاری اور قید جرم قرار دینا اور اس کے نتیجے میں ڈر اور خوف کی فضا پیدا کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے۔ ‘ اس کے علاوہ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں پیکا 2016 ایکٹ کی سیکشن 20 میں ہتک عزت اور اس کی سزا کو بھی آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دیا۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور ایف آئی اے سائبر کرائم وِنگ کے غیر قانونی اقدامات اہلکاروں کی بھی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی کیونکہ ماضی قریب میں درجنوں صحافیوں کو اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمات بنائے گئے۔ سیکریٹری داخلہ کو عدالتی فیصلے کی مصدقہ نقل موصول ہونے کے 30 دنوں میں تحقیقات مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ کے سربراہ کی جانب سے اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا جسکے نتیجے میں صحافیوں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔ عدالت نے ہدایت کی ہے سیکرٹری داخلہ اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے رجسٹرار کو آگاہ کریں۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری کے مہینے میں پاکستان میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں نئی ترامیم متعارف کروائی گئی تھیں جنھیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے جاری کیا گیا تھا اور اس کے تحت ’شخص‘ کی تعریف کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
نئی ترامیم کے مطابق ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی کو شامل کیا گیا جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید تین سے بڑھا کر پانچ سال تک کر دی گئی تھی۔ اس صدارتی آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہو گا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا تھا جو کہ ناقابل ضمانت تھا۔

Related Articles

Back to top button