جنوبی پنجاب سے 25 PTI اسمبلی اراکین کے استعفوں پر تحفظات


جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے 25 اراکین قومی اسمبلی نے عمران خان کے قومی اسمبلی سے استعفوں کے فیصلے کی مخالفت کردی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بغاوت کو ہوا دینے کے پیچھے عمران کے دست راست اور تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل شاہ محمود قریشی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق اسلام آباد کلب میں سید فخرامام کی جانب سے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا جس میں شاہ محمود قریشی نے بھی خصوصی شرکت کی۔ 25 اراکین قومی اسمبلی کی اس بیٹھک میں پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم خسرو بختیار، ذوالفقار کھوسہ، خواجہ شیراز، نیاز احمد جھکڑ، عامر ڈوگر اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے دو سینیٹرز بھی شامل تھے۔ اس اجلاس نما ڈنر میں قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی کھل کر مخالفت کی گئی اور اسے ایک غیر سیاسی فیصلہ قرار دیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے یہ موقف اپنایا کہ اگر استعفے ہی دینے ہیں تو پھر ہر جگہ یکساں پالیسی اختیار کرتے ہوئے چاروں صوبوں کی اسمبلیوں سے بھی استعفوں کا اعلان کیا جائے۔ ان اراکین کے مطابق استعفے دینے کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ نئی حکومت کیلئے میدان خالی چھوڑ دیا جائے اور وہ ہر معاملے میں اپنی من مانی کرتی پھرے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر شہباز شریف حکومت جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے کوئی قانون سازی کرے گی تو ہمارا اس عمل سے باہر رہنا دراصل سیاست سے باہر ہو جانے کے مترادف ہو گا۔
بتایا جاتا ہے کہ اجلاس میں عمران خان کے بدزبان چیف آف سٹاف شہباز گل بھی پہنچ گئے تھے جو اراکین جنوبی پنجاب کا بگڑا ہوا موڈ دیکھ کر کھانا کھائے بغیر چلے گے۔ لیکن شہباز کے جانے کے بعد بھی اراکین اسمبلی نے اپنے گلے شکوے جاری رکھے۔ کچھ اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم سے دھوکہ کر کے استعفے لیے گئے اور اب ذاتی مقاصد کی تکمیل کی خاطر ان کے ذریعے ہمیں بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کچھ اراکین قومی اسمبلی نے عمران کو بزدل اور جھوٹا شخص بھی قرار دے دیا۔
ذرائع کے مطابق یہ اجلاس دراصل شاہ محمود قریشی کے ایما پر بلایا گیا تھا تاکہ شہباز گل کے ذریعے عمران خان کو بغاوت کا پیغام دے کر استعفوں کے فیصلے پر عملدرآمد سے روکنے کے لئے دباؤ بڑھایا جا سکے۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی نے شہباز شریف کے بطور وزیراعظم انتخاب سے پہلے ہی عمران خان کی ہدایت پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا مگر ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان اراکین کے استعفوں سے متعلق بات کہاں پہنچی ہے۔ پارٹی کے پارلیمانی اجلاس کے دوران عمران نے مستعفی ہونے کا حتمی فیصلہ سنایا تو اراکین کی بڑی تعداد نے اپنے استعفے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے چیف وہپ عامر ڈوگر کو جمع کرا دیے جنھوں نے مزید کارروائی کے لیے انھیں پارٹی کے جنرل سیکریرٹری کے حوالے کر دیا۔
تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عامر محمود کیانی نے بتایا ہے کہ ضابطے کے تحت انھیں استعفے جمع کرائے گئے تھے جس کے بعد انھوں نے یہ استعفے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو جمع کرا دیے تھے جنہوں نے انہیں منظور کر لیا ہے۔ تاہم قومی اسمبلی سیکریٹریٹ ان استعفوں کو الیکشن کمیشن بھجوانے سے انکاری ہے اور اس کا موقف ہے کہ ہر رکن اسمبلی پہلے باری باری اپنے استعفوں کی تصدیق کرے۔
ادھر الیکشن کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا ہے کہ ابھی تک کمیشن کو سپیکر آفس سے کسی کے استعفے کی تصدیق موصول نہیں ہوئی ہے۔ ان کے مطابق کمیشن کسی بھی رکن کو صرف اس صورت میں ہی ڈی نوٹیفائی کر سکتا ہے جب سپیکر کی طرف سے اس حوالے سے معلومات شئیر کی جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ حال ہی میں حکومت کھونے والی تحریکِ انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ اُن کی کل نشستوں کی تعداد 155 ہے جن میں جنرل نشستوں پر کامیاب ہو کر آنے والوں کی تعداد 122 ہے۔ عامر کیانی کے مطابق اگر منحرف ہونے والے 22 اراکین کو شامل نہ کریں تو اب تک تحریک انصاف کے 128 ارکان نے اپنے استعفے بھیجے ہیں اور مزید تین اراکین ایسے ہیں جنھوں نے ابھی استعفے جمع نہیں کرائے مگر ان سے بات چیت ہو رہی ہے، وہ بھی جلد پہلی فرصت میں اپنے استعفے بھجوا دیں گے۔
اس سے پہلے تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی جماعت کے 135 اراکین کے استعفے جمع ہو چکے ہیں۔مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق سپیکر ایاز صادق کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے متعدد اراکین مستعفی نہیں ہونا چاہتے تھے مگر زبردستی ان سے دستخط کروا لیے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بغیر کسی کی مرضی کے اس سے زبردستی استعفیٰ نہیں لیا جا سکتا۔ ایاز صادق اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ استعفے اس طرح منظور ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق سپیکر پر لازم ہے کہ وہ ان استعفوں کی تصدیق کے بعد انھیں منظور یا رد کرے۔ ان کے مطابق جس وقت کوئی رکن سپیکر کو آ کر کسی سیکریٹری یا ڈپٹی سیکریٹری کی موجودگی میں گواہی نہ دے کہ اس نے اپنے مرضی سے استعفیٰ دیا ہے تو اس وقت تک استعفیٰ منظور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سپیکر کی طرف سے استعفے منظور ہونے کے بعد ہی پی ٹی آئی کے اراکین کو مستعفی تصور کیا جائے گا۔ پھر ان استعفوں کو الیکشن کمیشن بھجوا دیا جائے گا جو مستعفی اراکین اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرےگا۔

Related Articles

Back to top button