پاکستان اورآئی ایم ایف کے مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟


حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات کو اس لیےناکام اور بے نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان میں بجلی اور تیل پر دی جانے والی سبسڈی طے شدہ معاہدے کی خلاف قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کے مطالبے پر ڈٹ گیا ہے۔ دوسری جانب حکومت پاکستان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ سبسڈی واپس لیتی ہے تو پٹرولیم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جائے گا جس کا عوامی رد عمل سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔

آئی ایم ایف سے پاکستان کے مذاکرات ایسے وقت ناکام ہوئے ہیں جب اسلام آباد کو قرض کی اشد ضرورت تھی۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے جلد سبسڈی ختم نہ کی تو چار سے چھ ماہ کے اندر پاکستان کو معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

دوسری جانب وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات اگلے ہفتے تک جاری رہیں گے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سلسلہ وار ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں دوحہ میں آئی ایم ایف کی ٹیم سے مذاکرات کر کے ابھی واپس لوٹا ہوں، گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ہمارے وفد کے آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ بہت مفید اور تعمیری مذاکرات ہوئے ہیں۔ ہم نے مالی سال 2022 کے دوران چند معاشی ناکامیوں پر بات چیت کی ہے جن میں سے ایک رواں برس فروری میں پیٹرول کی قیمتوں پر سبسڈی دینا ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’مذاکرات میں ہم نے مالی سال 2023 کے اہداف پر تبادلہ خیال کیا اور ملک میں بڑھتی مہنگائی، زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بڑھتے خسارے کی روشنی میں ہمیں ایک سخت مالیاتی پالیسی اور اپنی مالی حالت کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ حکومت مالی سال 2023 میں بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘

انھوں نے آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ مذاکرات سے متعلق بتاتے ہوئے مزید لکھا کہ ’آئی ایم ایف کی ٹیم نے پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ سبسڈی گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دی تھی۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے اور ملک کو دوبارہ مستحکم ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ‘ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا حالیہ دور مکمل ہونے پر آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے تاہم عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں پاکستان کے لیے قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان دوحہ میں 18 سے 25 مئی تک مذاکرات ہوئے تاکہ پاکستان کے لیے قرضے پروگرام کو بحال کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام سے پالیسی اور اصلاحات پر مثبت بات چیت ہوئی جس سے آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔
’بات چیت کے دوران کافی معاملات پر مثبت بات ہوئی جن میں افراط زر کو کم کرنے کے لیے اقدامات اور کرنٹ اکاوئنٹ خسارے میں کمی سمیت معاشرے کے غریب طبقات کے تحفظ کے نکات شامل تھے۔‘

آئی ایم ایف کے مطابق 23 مئی کو پالیسی ریٹ میں اضافے کا فیصلہ ایک مثبت قدم تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی اور تیل کی مصنوعات پر سبسڈی کے فیصلے پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ ٹھوس پالیسی اقدامات لینے پر زور دیا گیا تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کے مقاصد پورے کیے جا سکیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت جاری رہے گی تاکہ ملک کی عوام کے لیے فائدہ مند معاشی استحکام حاصل کیا جا سکے۔

آئی ایم ایف کے اعلامیے میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کو تو تعمیری قرار دیا گیا تاہم قسط جاری کرنے کا ذکر نہیں اور آئی ایم ایف کی جانب سے مستقبل میں مذاکرات جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط ملنے کی امید تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت کو ملک میں سیاسی چیلنج کا بھی سامنا ہے، مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہونا وزیر اعظم شہباز شریف کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button