ڈینیئل پرل کیس: ملزمان جیل سے سہولت گاہ میں منتقل

حکومت سندھ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ اور ان کے 4 معاونین کو جیل سے نکال کر اسی کے احاطے میں ایک نو تعمیر شدہ سہولت گاہ میں منتقل کردیا گیا۔
احمد عمر شیخ کو سپریم کورٹ کے اس حکم کے تحت منتقل کیا گیا جس میں انہیں کراچی کی سینٹرل جیل سے نکال کر سرکاری ریسٹ ہاؤس منتقل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔محکمہ داخلہ سندھ سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ ‘تمام ملزمان کو جیل میں ہی نو تعمیر شدہ ایک ریسٹ ہاؤس میں منتقل کیا گیا ہے’۔
ذرائع نے بتایا کہ ملزمان کو ریسٹ ہاؤس میں اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت ہوگی تاہم وہ ٹیلی فون یا انٹرنیٹ کی سہولت استعمال نہیں کرسکتے اور ان کے اہلِ خانہ کو شہر میں وفاقی حکومت کی ایک عمارت ‘قصر ناز’ میںرہنے کی پیشکش کی جائے گی۔
یاد رہے کہ 2 فروری کو سپریم کورٹ نے عمر شیخ کی جانب سے رہائی کے باوجود بدستور قید کے خلاف دائر درخواست کی سماعت میں حکم دیا تھا کہ احمد عمر شیخ کو سیکیورٹی کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں رکھا جائے جہاں ان کے اہلِ خانہ بھی صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔عدالت نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ عمر شیخ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ دی جائے اور ان کے خاندان کو سرکاری خرچ پر رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کیا جائے۔
قبل ازیں 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے حکومت سندھ اور ڈینیئل پرل کے والدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کو بری اور رہا کرنے کے حکم کے خلاف دائر درخواستوں پر عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔تاہم حکومت سندھ کی جانب سے اگلے ہی روز اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل بھی دائر کردی گئی تھی۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔تاہم 25 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے چاروں ملزمان کو زیر حراست رکھنے کے لیے صوبائی حکام کے جاری کردہ ‘پریوینشن ڈیٹینشن آرڈرز’ کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔جن پر 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے ایک کے مقابلے 2 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button