چینی اسکینڈل کی ‘ازسر نو تحقیقات’ کا امکان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ناراض رہنما جہانگیر ترین اور دیگر کے خلاف چینی اسکینڈل میں تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کی برطرفی کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ازسر نو تحقیقات کروانے کا امکان ہے۔
ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ چینی اسکینڈل انکوائری ٹیم کے سربراہ ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر محمد رضوان کو ہٹانے کے بعد ایف آئی آر میں نامزد افراد کے خلاف کارروائی عملی طور پر رک گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی تک محمد رضوان کو ان کی برطرفی سے متعلق تحریری حکم نہیں ملا لیکن انہیں اوپر سے زبانی طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ چینی اسکینڈل کی تحقیقات سے الگ کردیے گئے ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومت نے ابھی تک تحقیقاتی ٹیم کا نیا سربراہ مقرر نہیں کیا۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ابوبکر خدا بخش نے ان خبروں کی تردید کی کہ انہیں نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ابوبکر خدا بخش نے بتایا کہ مجھے چینی اسکینڈل کی تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ مقرر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی نوٹی فکیشن جاری ہوا ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ٹیم کے نئے سربراہ ممکنہ طور پر اب تک کی گئی تحقیقات کا جائزہ لیں گے اور اس اسکینڈل کے کچھ پہلوؤں کی نئی تحقیقات کا آغاز کریں گے۔ محمد رضوان کو ہٹانا پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین اور ان کے گروپ میں شامل قانون سازوں کا بنیادی مطالبہ تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ تازہ ترین تحقیقات کا آغاز کرنا یا اس معاملے میں سست روی کا مطلب یہ ہے کہ ایف آئی آر میں نامزد ہونے والوں کو بالواسطہ فائدہ پہنچانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین اپنی عبوری ضمانت میں توسیع کے لیے 3 مئی کو عدالت میں پیش ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے مزید ثبوت پیش کرکے ان کی ضمانت منسوخ کرانے کی کوشش کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد رضوان نے نہ صرف جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین پر مقدمہ درج کیا بلکہ چینی اسکینڈل میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف 5 ارب روپے کی منی لانڈرنگ اور دھوکہ دہی کے الزامات میں ایف آئی آر بھی درج کی تھی۔ علاوہ ازیں ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر محمد رضوان نے جنوبی پنجاب سے وفاقی وزیر خسرو بختیار اور ان کے خاندان کے افراد اور 2 میڈیا ہاؤسز کی شوگر ملوں پر بھی ہاتھ ڈالا تھا۔ محمد رضوان کی سربراہی میں ایف آئی اے کے تفتیش کاروں نے شوگر مافیا کے ذریعے گزشتہ ایک سال کے دوران ’قیاس آرائی پر مبنی قیمتوں کے تعین‘ کے ذریعے 110 ارب ڈالر کی غیر قانونی کمائی کا سراغ لگایا تھا۔ انکوائری کے مطابق ‘سٹہ مافیا نے ایک سال کے دوران (قیاس آرائیاں) ایکس مل قیمت میں 20 روپے فی کلوگرام فراڈ کیا تھا اور اب وہ رمضان میں اسے 110 روپے فی کلو تک لے جانے کی سازش کر رہے ہیں’۔ شوگر اسکینڈل میں جہانگیر ترین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر میں درج الزامات کرمنل نوعیت کے نہیں ہیں اور یہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران ان کے تمام کاروبار کا معائنہ کیا گیا تھا اور تفتیش کاروں کو کوئی غیر قانونی عمل نہیں نظر آیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button