18 ارب کا کرپٹو کرنسی فراڈ کرنے والوں پر شکنجہ تنگ

پاکستانی شہریوں کے ساتھ کرپٹو کرنسی کے بزنس میں 18 ارب روپے کے حالیہ فراڈ کے بعد عالمی کرپٹو کرنسی کی ایکسچینج کمپنی بائنانس نے کیس کی تحقیقات میں مدد کرنے اور فراڈیوں کو گرفتار کرنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے رابطہ کرلیا ہے۔ بائنانس نے ایف آئی اے کو فراڈ میں ملوث 11 ایپلیکیشنز کے خلاف تحقیقات میں مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یاد رہے کہ بائنانس ایسی سرگرمیوں کو سہولت فراہم کرنے والا سب سے بڑا عالمی پلیٹ فارم ہے۔ بائنانس نے ایف آئی اے کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے دو لوگوں پر مشتمل ٹیم بنائی ہے جس کے اراکین امریکی وزارت خرانہ کے سابق اراکین ہیں اور کرپٹو کرنسی سے متعلق امور میں مہارت رکھتے ہیں۔

واضح رہے پچھلے ہفتے ایف آئی اے نے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ایک بڑے فراڈ کا انکشاف کیا تھا جس کے ذریعے پاکستان کے ہزاروں شہریوں کے ساتھ تقریباً 18 ارب روپے کا فراڈ کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ادارے کو 20 دسمبر کو پورے پاکستان سے شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ کرپٹو کرنسی کی عالمی ایکسچینج بائنانس سے جڑی 11 ایپلی کیشنز نے کام کرنا بند کر دیا ہے اور ان کے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے۔

اردو نیوز کے مطابق فراڈ کا پتا لگنے پر ایف آئی اے نے بائنانس پاکستان کے جنرل منیجر حمزہ خان کو بھی طلب کیا تھا تاکہ وہ ان فراڈ ایپلی کیشن کے بائنانس سے تعلق کی وضاحت کر سکیں۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے نے امریکہ اور کے مین آئی لینڈ میں بائنانس کے ہیڈکوارٹرز کو بھی نوٹسز بھیجے تھے۔ ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق ہر ایپلی کیشن کے اوسطاً پانچ ہزار صارفین تھے اور ایچ ایف سی نامی ایپلی کیشن کے 30 ہزار صارف تھے۔
ان افراد کی جانب سے سو ڈالر سے لے کر 80 ہزار امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی گئی تھی جب کہ اوسطاً ہر فرد نے دو ہزار امریکی ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے تک جمع کروا رکھے تھے۔ اس طرح مجموعی طور پر 10 کروڑ ڈالر کا فراڈ ہوا جو پاکستانی روپوں میں 18 ارب روپے کے برابر ہے۔

اس فراڈ کا انکشاف کرتے ہوئے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سندھ کے سربراہ عمران ریاض نے بتایا تھا کہ مختلف ایپلی کیشنز کے ذریعے ابتدا میں صارفین کو ورچوئل کرنسیز میں کاروبار کی سہولت دی جاتی تھی۔ بٹ کوائن، ایتھرام، ڈوج کوائن وغیرہ میں سرمایہ کاری بائینانس کے ذریعے ظاہر کی جاتی تھی، ایپلی کیشنز کے ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر ماہرین کرپٹو کرنسی پر جوا بھی کھلاتے تھے اور عوام کو مزید افراد اس سرکل میں لانے پر بھاری منافع کا لالچ دیا جاتا تھا۔

سونے کی فی تولہ قیمت میں معمولی کمی

عمران ریاض کے مطابق 20 دسمبر کو پورے پاکستان سے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ سے رابطہ کرنا شروع کیا اور کم از کم 11 موبائل ایپلی کیشنز کے بارے میں انکشاف کیا گیا کہ ان ایپلیکیشنز نے پاکستانی عوام کے ساتھ اربوں روپے کا فراڈ کر کے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان ایپلیکیشنز کا طریقہ کار لوگوں کو بائنانس کرپٹو ایکسچینج یا بائنانس ہولڈنگز لمیٹڈ میں رجسٹریشن کے لیے آمادہ کرنا تھا جس کا مقصد ورچوئل کرنسیوں جیسے بٹ کوائن، ایتھریم، ڈاج کوائن وغیرہ میں تجارت کرنا تھا۔ اسکے بعد اگلا مرحلہ بائنانس والیٹ سے اس مخصوص ایپلیکیشنز کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنا تھا۔

یہاں یہ مدِ نظر رہے کہ بائنانس سب سے بڑا غیر منظم ورچوئل کرنسی ایکسچینج ہے جہاں پاکستانیوں نے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق متاثرہ پاکستانیوں کو ٹیلیگرام ایپلی کیشن پر مختلف گروپس میں شامل کیا گیا جہاں ایپلی کیشن کے گمنام مالک اور ٹیلی گرام گروپس کے ایڈمنز کی جانب سے بٹ کوائن کے عروج اور زوال کے بارے میں نام نہاد ماہر بیٹنگ سگنلز دیے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ جب کافی بڑا کیپٹل بیس قائم ہو گیا تو یہ ایپلیکیشنز کریش ہوگئیں اور یوں ریفرل بونس عمل کے ذریعے لوگوں کے لاکھوں ڈالر لوٹے گئے۔ اس فراڈ کے بعد ایف آئی اے حکام نے بائنانس حکام سے رابطہ کیا تھا چنانچہ اب اس عالمی ادارے نے دو امریکی ماہرین پر مبنی تحقیقاتی ٹیم بنا دی ہے جو ایف آئی اے کے ساتھ مل کر تحقیقات کرے گی۔

Related Articles

Back to top button