پی ٹی آئی حکومت میں آئے تواپنے مطابق نیب قانون بنا لے

تحریک انصاف کے نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو ترامیم لانے سے روک دے ،تحریک انصاف کی حکومت آئے تو وہ اپنے مطابق نیب قانون بنا لے۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی سپیشل بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پرسماعت کی۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے اقوام متحدہ ،یورپی یونین اور افریقی یونین کے انسداد کرپشن کنونشن کے حوالے دیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق کرپشن کے حوالے سے کچھ بینچ مارک ہیں، جنہیں برقرار رکھنا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مجھے کسی نے بتایاکہ ابھی یو اے ای بھی منی لانڈرنگ کے کمزور قوانین کی وجہ سے گرے لسٹ میں ہے ۔اپ کیس میں بنیادی حقوق پر بات کریں۔ وکیل نے کہا کہ کرپشن سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ فیئر ٹرائل اور اور برابری کا حق بھی، ان ترامیم سے پہلے چیئرمین نیب کے پاس اختیا ر تھا کہ کسی کی بھی بینک کی تفصیلا ت طلب کر سکتے تھے۔

بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی پیسے کے غلط استعمال سے بھی عوام کا اعتماد خراب ہوتا ہے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ کی باتیں پارلیمنٹ کے لیے اچھی تقریر ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تو کوئی سننے کو تیار نہیں۔ انہیں جو کرنا ہے وہ کرنا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ بات سننے کے لیے پارلیمنٹ میں ہونا بھی چاہیے ۔اگر آپ انتخابات جیتتے ہیں تو اپنی ترامیم لائیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کےوکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کا ہر ملک کرپشن قوانین اور سزاوں کو سخت کرنے کا کہہ رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث صاحب کا خیال ہے جو چھوٹ گئے، ان کو پکڑنا مشکل ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ ان کو پھر سے پکڑ لینا۔ہر سیاسی جماعت کی جب اپنی حکومت آتی ہے تو وہ قوانین بناتی ہے۔ اگر نیب قوانین پسند نہیں تو تحریک انصاف کی حکومت آئے تو وہ اپنی خواہش کے مطابق قانون بنا لے ۔

بینچ کے سربراہ نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ ایک جوڈیشل کمیشن اجلاس کے بعد وفاقی وزیر قانون نے بتا یا کہ ہمارے کسی دوسرے قانون میں پارلیمنٹ میں تو بحث نہیں ہوئی لیکن کمیٹی جس پر سارے موجود تھے، وہاں کافی بحث ہوئی ہے، لہذا اگر نیب ترامیم میں بھی کوئی بحث ہوئی ہے تو اس کمیٹی کی تفصیلات فراہم کر دیں ۔

ایڈوورکیٹ خواجہ حارث نے کہا کہ سوئس اکاؤنٹس کیس میں کیس ختم ہوتے ہی سارا ریکارڈ غائب کردیا گیا۔ نیب ریفرنسز میں بھی اصلی دستاویزات نہ ہونے سے ملزمان بری ہوئے اور نیب نے کہہ دیا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر 31 اے ختم نہ ہوتا تو اسحاق ڈار واپس نہیں آسکتے تھے۔ ایسی ترامیم فائدے کے لیے کی جاتی ہیں۔

بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا بطور قوم ہم یہ سب افورڈ کرتے ہیں۔ روز بریت کے لیے درخواستیں آرہی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو عوام اس کو ووٹ نہیں دیں گے۔ کیا عدالت پارلیمنٹ کو ترامیم لانے سے روک دے؟۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پورا نظام مفلوج کیا جا رہا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جتنا آپ دلائل دیں گے، ہم میچ سے دُور ہوتے جائیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ترامیم ختم ہونے سے کیا عدالتوں کے احکامات ختم ہو جائیں گے؟، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ قوانین کو بحال بھی کرسکتی ہے۔ ان قوانین کے ذریعے تو کہہ دیا گیا کہ اگر سرکار کا پیسہ نہ ہو تو کرپشن نہیں گئی۔
جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

قومی احتساب بیورو (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے،بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

Related Articles

Back to top button