کیا کوئی سیاستدان شوکت ترین جتنا بھی گر سکتا ہے؟

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی لیکڈ آڈیو میں جو کچھ سامنے آیا ہے، اُسے آپ غداری کہیں، پاکستانی دشمنی یا کچھ اور لیکن بلاشبہ یہ انتہائی گھٹیا اور شرمناک حرکت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ بجائے کہ ترین کی جانب سے اپنی اس گندی حرکت پر شرمندگی کا اظہار کیا جاتا، اور معافی مانگی جاتی، پی ٹی آئی کے یوتھیے اور عمرانڈوز اس کا دفاع کر رہے ہیں اور اپنے لیے مزید شرمندگی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔

اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی سیاست کے لئےاتنا گر سکتا ہے، میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں سب سے پہلے فواد چوہدری نے جو کچھ کہا اور پھر آڈیو لیک میں شوکت ترین نے وزیر خزانہ خیبر پختون خوا اور وزیر خزانہ پنجاب کے ساتھ جو گفتگو کی، اُس سے کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کی منظوری عمران خان نے دی اور اسکا مقصد حکومت پر دبائو ڈالنا، جلد الیکشن کرانا اور خود پر مقدمات ختم کروانے کے لئے آئی ایم ایف قرض پروگرام کو سبوتاژ کرنا تھا۔

اسد عمر سمیت شوکت ترین اور وزیر خزانہ کے پی نے جس ڈھٹائی سے اپنے اس گھٹیا عمل کا ٹی وی چینلز پر آ کر دفاع کیا وہ بھی بے شرمی کی ایک نئی تاریخ ہے۔ اس واقعہ کو چند دن گزر چکے ہیں لیکن میں ابھی تک اسے ہضم نہیں کر پا رہا کہ کوئی سیاسی جماعت، کوئی سیاسی رہنما، کوئی پاکستانی کیسے اتنا گر سکتا ہے؟ مانا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی بھلے بہت مقبول ہیں، یہ اُن کا حق ہے کہ فوری الیکشن کا مطالبہ کریں اور اس کے لئے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جدوجہد بھی کریں لیکن کوئی الیکشن کے جلد انعقاد اور اقتدار کے فوری حصول کے لیے اتنا بے چین ہو جائے کہ ریاست کو بھی نقصان پہنچانے سے باز نہ آئے، اسے سیاست نہیں بلکہ پاگل پن ہی کہا جا سکتا ہے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے، اور ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو جائے تو یقیناً یہاں حالات سری لنکا سے بھی بدتر ہوجائیں گے اور اس بنا پر موجودہ حکومت قائم نہیں رہ سکتی، نئے الیکشن بھی ممکن ہو جائیں گے لیکن تحریک انصاف نے یہ کیوں نہ سوچا کہ اس سے عمران خان کے الیکشن جیتنے اور دوبارہ حکومت میں آنے کا راستہ تو کھل جائے گا لیکن پاکستان کا کیا حال ہو گا، عوام پر کیا گزرے گی، ڈالر کتنا اوپر جائے گا، پٹرول پانچ سو، ہزار روپے تک مہنگا ہو سکتا ہے اور اس سے جو مہنگائی کا طوفان آئے گا، کیا وہ پاکستان کو حکمرانی کے قابل چھوڑے گا؟ عمران خان اور شوکت ترین نے کیا یہ بھی نہ سوچا کہ پاکستان کو سری لنکا بنا کر وہ حکومت میں تو دوبارہ آ جائیں گے لیکن حکمرانی کیسے کریں گے؟ معیشت کی تباہی کا جوبیج وہ بونا چاہ رہے تھے ، وہ کام اگر ہو جاتا تو تباہ شدہ معیشت کو حکومت میں آ کر وہ کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی اس حرکت کو دیکھ کر اب تو مجھے اس بات کا بھی یقین ہو گیا ہے کہ رواں سال مارچ میں اپنی حکومت کے خاتمے سے پہلے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے پٹرول اور ڈیزل سستا کرنے کا عمل بھی دراصل آنے والی حکومت کے لئے بارودی سرنگ بچھانے کے مترادف تھا۔ اُس وقت بھی تحریک انصاف نے اپنے سیاسی حریف کو ناکام بنانے کےلئے جو حربہ استعمال کیا وہ دراصل پاکستان کے لئےنقصان دہ تھا، اُس سے عوام کو نقصان پہنچا اور معیشت کو ایک بھنور میں دھکیل دیا گیا کہ معاشی حالات بد سے بدتر ہوئے اور پاکستان کو ڈیفالٹ کے ایک ایسے خطرے کا سامنا کرنا پڑا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاست کے نام پر یہ سب کھلواڑ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے۔

آدھا پاکستان ڈوبا ہوا ہے اور کروڑوں عوام اس آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس آفت سے پاکستان کو کھربوں روپےکا نقصان ہواہے۔ ہماری معاشی حالت پہلے ہی خراب ہے، اسلئے بیرونی دنیا کی مداد کے بغیر ہم سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کا کام نہیں کر سکتے۔ ایسے میں جب دنیا پاکستان کی مدد کرنا چاہ رہی ہے تو تحریک انصاف کی ایک سابق ایم این اے شاندانہ گلزار نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ سیلاب زدگان کےلئے حکومت پاکستان کو امداد نہ دیں۔ اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ اس امداد میں کرپشن ہو رہی ہے۔ انصار عباسی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کچھ ایسی ہی بات کنول شوذب نے بھی کی تھی اور بیرون ملک تحریک انصاف کے حامیوں کو کہا تھا کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کے سیلاب فنڈ میں عطیات نہ دیں۔ ان حرکتوں پر اب میں کیا کہوں۔ صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں تحریک انصاف والے سیاسی مخالفت میں اخلاقی پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں۔

Related Articles

Back to top button