200 اراکین پنجاب اسمبلی دو ہفتوں سے دو ہوٹلوں میں بند

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں مسلسل تاخیر کرانے کی وجہ سے حمزہ شہباز کے حمایتی 200 اراکین صوبائی اسمبلی پچھلے دو ہفتوں سے لاہور کے دو ہوٹلوں کے کمروں میں بند ہیں اور اب تنگ پڑتے جا رہے ہیں۔
یہ اراکین پنجاب اسمبلی یکم اپریل سے وزارت اعلیٰ کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے لاہور کے دو ہوٹلوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں ان کے لیے 150 کمرے بک کرائے گئے ہیں۔ اپوزیشن کے فیصلے کے مطابق ان میں سے کسی بھی رکن پنجاب اسمبلی کو الیکشن تک اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اراکین اپنے گھروں میں رہائش پذیر ہیں مگر انہیں بھی لاہور میں ہی رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے اختیارات بحال کرتے ہوئے 16 اپریل کو ہر صورت نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کا الیکشن کروانے کا حکم جاری کیا ہے۔ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا 16 اپریل کو بھی الیکشن ہو پاتا ہے یا نہیں؟
ممکنہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے حمایتی اراکین پنجاب اسمبلی کو یکم اپریل کو گلبرگ میں واقع لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا لیکن جب پی ٹی آئی نے ہوٹل کے باہر مظاہرے شروع کر دیے تو ان اراکین کو وہاں سے نکال کر دو مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرا دیا گیا۔ اپوزیشن کی جانب سے 6 اپریل کو ہونے والے علامتی اجلاس میں شرکت کے لیے ان اراکین کو بسوں اور گاڑیوں میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کی قیادت میں ایک ہوٹل سے دوسرے میں لے جایا گیا تھا۔ اس پاور شو میں حمزہ شہباز نے 199 اراکین اسمبلی کی حمایت ثابت کردی تھی، یوں پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات ختم ہو گئے تھے لہٰذا انہوں نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک ملتوی کروا دیا اور ڈپٹی سپیکر مزاری کے اختیارات معطل کر دیئے۔ اب لاہور ہائی کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کے اختیارات بحال کر دیے ہیں اور 16 اپریل کو وزیراعلیٰ کا الیکشن کروانے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما یاور بخاری کے مطابق ’مسلم لیگ ن نے چھانگا مانگا کی سیاست دہرائی ہے، اراکین کی بھیڑ بکریوں کی طرح بولیاں لگائی گئیں، اس نے اپنے اراکین پنجاب اسمبلی کو محصور کر رکھا ہے جو ایک غیر جمہوری عمل ہے لیکن پھر بھی چوہدری پرویز الٰہی ہی کامیاب ہوں گے۔ لیکن متحدہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے منحرف رکن صوبائی اسمبلی فیصل جبوانہ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کا اکٹھے رہنا اس لیے ضروری ہے کہ پرویزالٰہی کی جانب سے ان پر دباؤ نہ ڈالا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ان اراکین کے لیے لاہور کے دو ہوٹلوں میں 150 کمرے بک کرائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اراکین کو ہوٹل میں رہنے کی ہدایت ضرور کی گئی ہے لیکن یہ تاثر غلط ہے کہ انہیں بند رکھا گیا ہے۔ فیصل کے بقول جن اراکین کے گھر لاہور میں ہیں وہ وہاں رہ سکتے ہیں جو ہوٹل رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں تاہم اجلاس کے وقت سب کو ہوٹل پہنچنے کا پابند ضرور کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے تمام اراکین اسمبلی جن کی تعداد 200 ہے ووٹ ڈالنے کے لیے 3 اپریل کو بلائے گئے اجلاس میں پنجاب اسمبلی پہنچے لیکن اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ اس کے بعد چھ اپریل پھر 16 اپریل تک ملتوی کیا گیا۔ بار بار کی تاخیر ایم پی ایز کے لیے پریشان کن ہے، ہم اپنے علاقوں میں نہیں جا پارہے حلقوں کے کام متاثر ہورہے ہیں اور حلقوں میں افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر پنجاب حسن مرتضیٰ نے کہا کہ حکمران جماعت غیر جمہوری حربے استعمال کر رہی ہے، اجلاس کو بار بار ملتوی کر کے ہمارے اراکین کو دھمکیاں دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا جارہا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اراکین اسمبلی بچے ہیں جو انہیں کوئی زبردستی کہیں رہنے پر مجبور کر سکتا ہے ہاں البتہ سپیکر کے حربے دیکھ کر ہم نے اراکین کو لاہور میں موجود رہنے کا بندوبست کیا ہے کیونکہ جس طرح سپیکر نے ڈپٹی سپیکر کے خلاف کارروائی کی اور توڑ پھوڑ کا بہانہ بنا کر اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں، اسی طرح کسی بھی وقت کوئی بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے اسی لیے اراکین کو لاہور میں رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب لاہور کے جن دو ہوٹلوں میں اراکین اسمبلی کو ٹھہرایا گیا ہے ان کے ایک کمرے کا کرایہ 16 سے 20 ہزار روپے یومیہ ہے، تاہم کھانے اور ناشتہ کا انتظام الگ سے کیا جاتا ہے۔ ہوٹلوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں پابند کیا گیا ہے کہ تمام کمرے غیر معینہ مدت تک بک رکھیں، اور جب خالی کریں گے تو حساب ہوجائے گا۔
دوسری جانب سابق صوبائی وزیر یاور بخاری کا کہنا تھا کہ ہم نے پرویز الٰہی کی کامیابی کا پورا بندوبست کررکھا ہے لیکن قبل از وقت تفصیل نہیں بتا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 200 اراکین کی حمایت کا دعویٰ کرنے والی ن لیگ کسی بڑی غلط فہمی کا شکار ہے، ہمیں اپنے اراکین کی مکمل حمایت حاصل ہے، ہم حمزہ کو شکست دے کر بڑا سرپرائز دیں گے۔ انہوں نے کہا، ’ہم نے اراکین اسمبلی کو ٹھہرانے کا کوئی انتظام نہیں کیا، وہ سب اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے اراکین پر اعتماد ہے، لیکن جن لوگوں نے ضمیر کے سودے کیے ہوتے ہیں ان کے بدلنے کا خوف ہوتا ہے۔ یاور بخاری سے پوچھا گیا کہ علیم خان نے الزام لگایا ہے کہ مونس الٰہی ہر ایم پی اے کو تین کروڑ کی آفر کر رہے ہیں، کیا یہ سچ ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم اگر آفرز کراتے تو ہمیں بھی اراکین اسمبلی کو محصور رکھنا پڑتا اور لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوتے نظر آتے، انکا کہنا تھا کہ ضمیر کی آواز پر کئی ن لیگی اراکین ہمارے ساتھ رابطوں میں ہیں جو انتخاب کے موقع پر سب کے سامنے آجائیں گے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی جہانگیر ترین، علیم خان اور اسد کھوکھر گروپس حمزہ شہباز کی حمایت کے فیصلے پر قائم ہیں، ابھی تک ان کی جانب سے پرویز الٰہی کی حمایت سے متعلق حامی نہیں بھری گئی۔