بلاول بھٹو نے خود کو ایک میچور سیاسی لیڈر کیسے ثابت کیا؟


پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے گزشتہ چند برسوں کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے بڑی عقل و سمجھ اور ہمت و حوصلے کے ساتھ پاکستانی سیاست کی پرخاروادیوں میں اپنا سفر آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف خود کو سیاسی طور پر ایک میچور لیڈر کے طور پر منوایا ہے بلکہ اپنے سیاسی قد کاٹھ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال بلاول بھٹو کی زیر قیادت پاکستان کی بڑی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہے۔ 21 ستمبر 2020 کو اپنی 32ویں سالگرہ منانے والے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے اکلوتے بیٹے بلاول کے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ جس طرح شیر کے بچے کو شکار کرنا اور مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھانا نہیں پڑتا اسی طرح بلاول کو بھی سیاست اور پولیٹیکل وزڈم میراث میں ملا ہے۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ بلاول میدان سیاست میں اپنی چوائس سے آیا ہے اور یہ اسکا دلیرانہ فیصلہ تھا کیونکہ اس کے دادا سے اس کی والدہ تک بھٹو خاندان کی شہادتوں کی ایک خونی تاریخ ہے۔
2007 میں اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی شہادت کے چند سال بعد جب بلاول بھٹو نے عملی سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا تو انہیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور متحدہ قومی مومنٹ کے بانی الطاف حسین کی جانب سے کم عمری کا طعنہ سننے کو ملا۔ جواب میں بلاول نے چچا عمران اور چچا الطاف کی اصطلاحات متعارف کرائیں جو عرصے تک روایتی اور سوشل میڈیا پر سنائی دیتی رہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے پنجابی میں ’لواں گے لواں گے پورا کشمیر لواں گے‘ کا نعرہ لگایا جسے کافی مقبولیت ملی۔
بلاول بھٹو زرداری کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی کسی بھی مین سٹریم سیاسی جماعت کے سب سے کم عمر سربراہ ہیں۔ جس طرح نواز شریف اپنی جگہ مریم نواز کو مسلم لیگ ن میں آگے لا رہے ہیں اسی طرح آصف زرداری پیپلز پارٹی کی باگ ڈور بلاول بھٹو کو سونپ رہے ہیں۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ انہیں بلاول کے میدان سیاست میں آنے پر فخر ہے کیونکہ یہ ایک دلیرانہ فیصلہ تھا۔ انخے بقول بلاول اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے نانا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، والدہ محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کے دو بھائیوں میر مرتضی اور شاہنواز بھٹو نے پاکستان میں سیاست کرنے کی قیمت اپنے خون سے چکائی۔ بلاول کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو اپنے خانوادے کی شہادتوں کی تاریخ دیکھ کر شاید سیاست سے کوسوں دور ہو جاتا لیکن انہوں نے شہدا کے خون کا فرض اتارنے کے لئے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف دبنگ انداز میں عملی سیاست شروع کی بلکہ اپنے طرزعمل سے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ اس قدر نڈر اور بے خوف سیاست وہی کرسکتا ہے جس کی رگوں میں بھٹو کا خون دوڑ رہا ہو۔
بینظیر بھٹو شہید کے لاڈلے بلاول نے جب سے پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی ہے وہ جمہوری اقدار کے فروغ، مضبوط وفاق، مستحکم معاشی پالیسی اور انسانی حقوق کی علمبرداری کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں جس جرات اور طنطنے کے ساتھ یہ نوجوان لیڈر صوبائی خودمختاری، معاشی برابری، صحت و تعلیم کی فراہمی، اقلیتیوں اور خواتین کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے، عہد حاضر میں اس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے 2018 کے عام انتخابات میں زوردار انتخابی مہم چلا کر سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل مچا دی تھی۔
شدت پسندوں کی جانب سے اپنی جان کو لاحق خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے ہوئے بلاول نے پورے پاکستان میں قریہ قریہ، شہر شہر اور گاؤں گاؤں کا دورہ کیا۔ بلاشبہ اس وقت بلاول بھٹو زرداری ملک کا وہ واحد لیڈر ہے جو کراچی سے لے کر کشمیر تک اور کشمیر سے لے کر گلگت تک کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے ۔مادر جمہوریت محترمہ نصرت بھٹو اور قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ اب اپنے پرکھوں کی طرح عوام کی آواز بن کر ابھر رہا ہے۔ بلاول اپنے خطاب میں عوام کے معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق کی بات اسی پرزور انداز اور واشگاف الفاظ میں کرتے ہیں جس انداز میں ان کے نانا اور والدہ کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے عوام وخواص کو بلاول میں ان کی جھلک نظر آتی ہے۔ بلاول کے کاٹ دار جملے اب زبان زد عام ہو رہے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وی اب عوام کی نبض پر پر ہاتھ رکھنا جان گئے ہیں۔ لیکن بلاول کے جس ایک لفظ کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ سلیکٹڈ ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے انتخاب کے فوری بعد بلاول نے اپنے پہلے خطاب میں بار بار کہا کہ وہ پرائم منسٹر سلیکٹ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ خود وزیر اعظم عمران خان بھی اسوقت اسے وزیر اعظم الیکٹ سمجھ کر ڈیسک بجاتے رہے لیکن دو برس گزر جانے کے بعد اب وہی لفظ سلیکٹڈ کپتان کی چھیڑ بن چکا ہے جو کہ بلاول بھٹو کی بڑی سیاسی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
کہتے ہیں بلاول کا نام سندھ کے عظیم صوفی بزرگ شاعر اور فلسفی مخدوم بلاول بن جام حسن سمو کے نام پر رکھا گیا۔ لفظ بلاول کی لغوی معنی لاثانی کے ہیں یعنی ایسا جس کا کوئی ثانی نہ ہو۔ حضرت بلاول بن جان کو دسویں صدی ہجری میں اس وقت کے سندھ کے ارغون حکمران نے انکی حق گوئی کی وجہ سے کوہلو میں پسوا کر قتل کر دیا تھا۔ اپنے اصولوں کی خاطر پھانسی کا پھندہ چومنے والے بلاول بھٹو نے 21 ستمبر 1988کو کراچی کے لیڈی ڈفرن اسپتال میں آنکھ کھولی۔ بلاول کی خوش قسمتی کہ جب وہ دنیا میں آئے تو پاکستان سے ضیا آمریت کا جنازہ اٹھ چکا تھا اور ان کی والدہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کر چکی تھیں۔ اپنے والد آصف زرداری کے زیادہ عرصہ جیل میں ہونے کی وجہ سے بلاول کی ابتدائی سیاسی تربیت ان کی والدہ نے کی۔ بلاول نے ابتدائی تعلیم کراچی گرامراسکول سے اور اس کے بعد فروبلز انٹرنیشنل سکول ،اسلام آباد سے تعلیم حاصل کی۔ 1999 میں اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی خود ساختہ جلا وطنی کے وقت وہ اُن کے ساتھ ہی بیرون ملک چلے گے۔ دبئی منتقل ہونے کے بعد انھوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ راشد پبلک اسکول دبئی میں آگے بڑھایا۔
2007میں بلاول بھٹو نے برطانیہ کی اوکسفرڈ یونیورسٹی کے سب سے اہم کالج کرائسٹ چرچ میں داخلہ لیا، برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی سے ’بی اے آنرز‘ کی سند جدید تاریخ اور سیاست کے شعبے میں حاصل کی۔ یاد رہے کہ بلاول کی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کی طرح یہاں طلبہ یونین میں بھی سرگرم رہے۔ اسی دوران انہیں 2007 میں اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی اچانک شہادت کا صدمہ سہنا پڑا۔ بلاول پر پاکستان منتقل ہوکر حکومتی اور پارٹی امور سنبھالنے کے لئے دباؤ تو تھا لیکن انہوں نے پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بلاول 2011 میں وطن واپس آئے اور سیاسی معاملات میں حصہ لینا شروع کیا۔ پاکستان کی تمام زبانیں سیکھنے کی خواہش رکھنے والے بلاول کو اُردو زبان پر کافی حد تک عبور ھاصل ہو گیا ہے۔ اب اُن کی زیادہ توجہ سندھی زبان سیکھنے پر مرکوز ہے۔ 2014 میں کراچی کے تاریخی جلسہ عام سے بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سیاسی سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ بلاول اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 30 دسمبر 2007 کو پیپلز پارٹی کے سربراہ نامز ہوئے تھے۔ ان کا نام بلاول علی زرداری سے تبدیل کرکے بلاول بھٹو زرداری کر دیا گیا۔ انھوں نے اُسی ٹرک سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے 18 اکتوبر 2007 کو استقبالی جلوس کی قیادت کی تھی۔ بلاول بھٹو نے سیاست کے میدان میں اپنے نانا ذو الفقار علی بھٹو کو فالو کیا۔ ان کی طلسماتی شخصیت اور انداز بیاں کو اپنایا اور اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا نام جوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی کی فکر اور سوچ کو عوام تک منتقل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
عام انتخابات 2018میں بلاول پہلی مرتبہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشست سے منتخب ہوکر اسمبلی پہنچے۔ اس وقت نوجوان بلاول کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان کے کاندھوں پر بہت بڑی سیاسی ذمہ داری ہے جسکی ادائیگی میں انہیں اپنے والد کی گایئڈینس بھی حاصل ہے۔ وہ سندھ حکومت چلانے کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر کراچی سے کشمیر تک فعال بنانے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی ہر دم کوشش ہے کہ کسی طرح سندھ کے تخت پر بھی قبضہ کرلیا جائے۔ لیکن ان تمام تر سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بلاول کراچی میں امن و امان کی صورتحال، اقلیتوں کی جبری شادیوں کا مسئلہ، موسمیاتی تبدیلی اور وفاق کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ کی رقم جیسے تنازعات کو بھی احسن انداز میں حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال میں بھی بلاول کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو انتقامی کارروائیوں اور کیسز کا سامنا ہے، حکومت مخالف جماعتیں چاہتی ہیں کہ بلاول ان کے کندھے سے کندھا ملا کر حکومت گرانے میں ان کا ساتھ دیں۔ چنانچہ بلاول کی میزبانی میں 20 ستمبر کو ہونے والی کامیاب آل پارٹیز کانفرنس اس حقیقت کیطرف اشارہ کررہی ہے کہ نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور قوم پرست جماعتوں کو ایک میز پر بٹھانے کی اہلیت رکھنے والا بلاول چاروں صوبوں کی زنجیر بن چکاہے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر بلاول پنجاب میں پیپلزارٹی کی مقبولیت کو دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کا سیاسی مستقبل انتہائی روشن ہوگا بلکہ وہ بھٹو فیملی سے تعلق رکھنے والے ملک کے تیسرے وزیراعظم بھی ہو سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button