آئی ایم ایف سے قرض کی ڈیل لٹک کیوں گئی؟

ملکی سیاسی و معاشی حالات ہر گزرتے دن کے ساتج ابتر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اتحادیوں حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج کون ہے؟ خود یہ سرکار؟ بیک روم بوائز؟ عمران خان؟ عدلیہ؟ یا پھر آئی ایم ایف؟ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔ وسعت اللہ خان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کے اندرونی اختلافات سلٹانا نبستاً آسان ہے کیونکہ بھلے کوئی کسی کو کتنا بھی ناپسند کرے مگر اس وقت ساتھ جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے۔بیک روم بوائز کو بھی ہاتھ پاؤں جوڑ کے سمجھایا جا سکتا ہے کہ مانا آپ عقلِ کل ہیں۔ پھر بھی ہاتھ ذرا ہولا رکھیں اور ہمیں بھی اپنی سائنس لڑانے کا تھوڑا موقع دیں۔عمران خان کو بھی یکے بعد دیگرے مقدمات کی رسی میں باندھ کے وقتی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

عدلیہ کو بھی بات چیت کی فلم دکھا کے، قانون سازی کی کرتب بازی، بال کی کھال اتارنے کے فن اور آئینی شوربہ پتلا کر کے مصروف رکھتے ہوئے تھوڑی بہت مہلت کمائی جا سکتی ہے۔مگر آئی ایم ایف کا کیا کریں؟ ایک ایسا بین الاقوامی کلرک جو سائل کو چکر پر چکر لگوا رہا بے، بار بار کسی نہ کسی جملے پر لال دائرہ لگا کے درخواست ٹائپ پر ٹائپ کروا رہا ہے۔ایک کے بعد ایک سوال پوچھ رہا ہے، کاغذ پر کاغذ طلب رہا ہے، دستخط سے دستخط ملا رہا ہے۔کتنا ٹیکس دیتے ہو؟ آخری بار پراپرٹی ٹیکس کب دیا تھا، بجلی پانی گیس کا بل کہاں ہے جس پر تمہارا نام اور ایڈریس بھی ہو۔آخری ٹیکس گوشوارے کب بھرے تھے، ان کی رسیدیں کہاں ہیں؟ پوری کیوں نہیں؟ دو کم کیوں ہیں؟ کیا کہا بچے نے پھاڑ دیں؟ بچوں کی پہنچ سے دور کیوں نہیں رکھتے؟اس ہفتے تو مشکل ہے۔ اگلے ہفتے پھر چکرلگا لو۔ چلو اب کرسمس کی چھٹیوں کے بعد آنا، اب میری سالانہ چھٹیاں شروع ہیں بعد میں فائل دیکھیں گے، اگلی بار آؤ تو فائلوں کے تین سیٹ بنوا کر لانا۔

پچھلی بار اوتھ کمشنر کی آدھی مہر لگی تھی۔ اس بار دستخطوں کے نیچے پورا ٹھپہ ہونا چاہیے۔ ہر کاغذ پر مجسٹریٹ درجہ ِاول کے تصدیقی سائن کروانا مت بھولنا ورنہ صاحب لوگ میٹنگ میں فائل منہ پر دے ماریں گے وغیرہ وغیرہ۔

وسعت اللہ خان کا مزید کہنا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ کسی گرگ ِباران دیدہ کرمچاری کی طرح تمام شرائط یک مشت بتانے کے بجائے ایک ایک کر کے بتا اور ہنپا رہا ہے۔ بس چلے تو کمینے کا گھلا گھونٹ دیں، پراکڑنے کے لیے پلے بھی تو کچھ ہو۔آئی ایم ایف بھی جانتا ہے کہ پاکستان نے 70 برس میں دو درجن سے زائد قرض پروگرام خریدے مگر سوائے ایک کے کوئی فنڈنگ پروگرام پورا نہیں کیا۔ پیسے ٹریکٹر خریدنے کے نام پر لیے مگر ان پیسوں سے تائی اماں کو جیولری بنوا کے دے دی۔ گھر بنانے کے لیے لون لیا اور اس لون کو کسی ڈبل شاہ کے حوالے کر دیا۔دوست بھی کب تک ساتھ دیں اور کتنا؟ سب جان چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت کسی بھی مقدس کتاب پے قسمیہ ہاتھ دھر کے پیسہ تو لے لیتی ہے مگر قرض کو آمدنی شمار کرتی ہے۔اگر کوئی گریبان پے ہاتھ ڈال دے یا گالم گلوچ پر اتر آئے تو کسی اور پارٹی سے ادھار پکڑ کے گھر کے سامنے بیٹھے قرضئی کو قسط دے کر وقتی گلو خلاصی کروا لیتی ہے۔

وسعت اللہ خان کھ بقول پچھلی حکومت نے بھی یہی کیا۔ مسکین صورت بنا کے آئی ایم ایف سے پیسے لیے اور پھر سستے پٹرول سے ان پیسوں کو آگ لگا کے وقتی چراغاں کر کے رخصت ہوئی۔موجودہ حکومت لاکھ روئے پیٹے کہ پچھلوں کی سزا ہمیں کیوں دے رہے ہو مگر آئی ایم ایف اس لیے بہرا بنا بیٹھا ہے کیونکہ وہ کسی حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو جانتا ہے کہ جس کے نام پر قرضے لے لے کے مجرے پر اڑائے جاتے رہے۔اوپر سے ہمارے وزرا بھی پیٹ کے ہلکے اور بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنے کے عادی ہیں۔ ابھی پیسے ملے نہیں کہ پیشگی شور مچا دیا کہ جیسے ہی آئی ایم ایف کی قسط آتی ہے عوام کو الیکشن سے پہلے ٹھیک ٹھاک ریلیف دے دیں گے تاکہ الیکشن میں کچھ ووٹ بڑھ سکیں۔یہ امید دلانے والے ایک بار پھر بھول گئے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ کسی پی ڈی ایم یا پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ ریاست کو ملتا ہے اور آئی ایم ایف حلوائی کی دوکان نہیں کہ ہر بار اس پے جا کے دادا جی کی فاتحہ دلوائی جائے۔اب تو آئی ایم ایف نے بھی اردو اور پنجابی سیکھ لی ہے۔ غالباً اس کے کارندے پارلیمانی و جلسہ گاہی شعلہ بیانی کی بھی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا کورٹ نمبر ون کے سمن سے ماورا ہیں، لہٰذا ایسے خشک بے مروت اور سپاٹ چہرے والے ادارے سے بے وقت کا مذاق بھی نہیں بنتا۔ پٹڑی سے اترا ایک جملہ کروڑوں ڈالر میں پڑ سکتا ہے۔چنانچہ یہی ہوا۔ آئی ایم ایف نے اب اگلے بجٹ کا خاکہ طلب کر کے ’انتخابی بجٹ‘ دینے کی سرکاری امید پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ اوپر سے 30 جون تک پاکستان کو بیرونی قرضے کی قسط کی مد میں ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کرنی ہے۔

آئی ایم ایف کے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی جو دو آخری قسطیں پاکستان کو ملنی تھیں، وہ کہیں مالیاتی تفتیش میں اٹک کے رہ گئیں اور موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بھی 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نیا سالانہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں بنانا ہوگا بصورتِ دیگر پاکستان کے لیے اگلے فنڈنگ پروگرام کی منظوری میں موجودہ پروگرام سے بھی کہیں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔وہ دن ہوا ہوئے جب پاکستان کو متبادل کے طور پر دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے فنڈز میں سے ہر سال خدمات بجا لانے کے عوض چند ارب ڈالر کا سہارا مل جاتا تھا تاکہ اشرافی اللّوں تللّوں کو سہارا دینے والا معاشی ڈھانچہ جیسے تیسے کھڑا رہے۔اب نہ وہ امریکہ رہا جو آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے کہہ دیتا تھا کہ ’برخوردار پر ذرا ہاتھ ہولا رکھو۔ بچے کی جان لو گے کیا۔‘

وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ امریکہ آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈز (ساڑھے سولہ فیصد) دان کرتا ہے اور اس کا قرض لینے کا کوٹہ بھی سب سے ذیادہ ( پونے اٹھارہ فیصد ) ہے۔

چین اور امریکہ کے روز بروز بڑھتے مناقشے میں پاکستان نے بالاخر چینی کیمپ پوری طرح سے چن لیا ہے اور یہ خبر ہم تک پہنچنے سے بہت پہلے بین الاقوامی مالیاتی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس آخر خود کو کتنا اور کب تک بچا سکتی ہے ؟

Related Articles

Back to top button