امپورٹڈ ادویات، گاڑیاں کن راستوں سے پنجاب تک پہنچتی ہیں؟

بھارت کے ساتھ پاکستان کی تجارت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی بھارتی ادویات، کاسمیٹکس اور دیگر اشیا بازاروں میں عام ملتی ہیں جبکہ امپورٹڈ گاڑیاں اور دیگر نان کسٹم سامان بھی مخصوص جگہوں پر دستیاب ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سامان کن راستوں سے پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔خیبر پختونخوا کسٹمز کے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ سمگلنگ یا بلیک مارکیٹنگ کو روکنا بہت بڑا چیلنچ ہے جو محدود وسائل میں اتنا آسان نہیں، پاکستان میں سمگلنگ افغانستان اور ایران سے ہوتی ہے، خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں تعینات کسٹم کے ایک اور افسر نے ژوب اور ڈی آئی خان کو اسمگلنگ کا مرکزی روٹ قرار دیا، پاک افغان بارڈر پر چیکنگ سخت کرنے اور باڑ کے بعد خیبر پختونخوا سے ملحقہ بارڈر سے سامان کی غیر قانونی ترسیل کم ہوئی ہے، ذرائع نے بتایا کہ کنٹینرز کے ذریعے اب بھی افغانستان سے مختلف سامان کو غیر قانونی طور پر خیبر پختونخوا میں لایا جاتا ہے اور اس کام میں پیسہ لگتا ہے۔ذرائع کے مطابق طورخم اور وادی تیراہ سے اسمگلنگ کے ذریعے زیادہ تر الیکٹرونکس اور کاسمیکٹس اور دیگر چیزیں آتی ہیں، انڈیا، دبئی ایران اور مغربی ممالک کا مال افغانستان سے منتقل ہوتا ہے جبکہ گاڑیوں کے ٹائر اور اسپیئرپارٹس بھی سمگل ہوتے ہیں۔خیبر پختونخوا کی مارکیٹ میں صابن سے لے کر میڈیسن، تیل، خشک خوراک اور گاڑیاں تک اسمگلنگ کے ذریعے آتی ہیں جو کھلے عام مارکیٹ میں مل جاتی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کپڑا، ٹائز، انڈین میڈیسن، الیکٹرونکس، کاسیمٹکس کا سامان زیادہ تر خیبر پختونخوا منتقل کیا جاتا ہے جبکہ گاڑیاں، کمبل اور دیگر سامان ایران اور افغانستان سے بلوچستان اور پھر کے پی منتقل کیا جاتا ہے۔ ایرانی تیل کی بھی اسمگل ہوتا ہے۔مالاکنڈ ڈویژن اور گلگت بلتستان میں اسمگلنگ کی گاڑیاں چلتی ہیں جنہیں نان کسٹم پیڈ کہا جاتا ہے۔ ان گاڑیوں کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی اور نہ ہی ان پر کوئی ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ یہ گاڑیاں جاپانی ہوتی ہیں جو افغانستان کے ذریعے اسمگلنگ سے پاکستان اور پھر مالاکنڈ ڈیثرون پہنچ جاتی ہیں اور ان علاقوں اور شہروں سے ہو کر جاتی ہیں جہاں ان گاڑیوں کی اجازت نہیں ہوتی۔اسمگلرز کے لیے موٹرویز سب سے محفوظ اور آسان روٹ ہیں۔ کسٹم ذرائع کے مطابق موٹرویز پر چیکنگ کا کوئی نظام موجود اور نہ ہی وہ موٹرویز پر کارروائی کرتے ہیں، وی نیوز نے ایک ایسے ڈرائیور سے گفتگو کی جو چمن سے سوات نان کسٹم پیڈ گاڑیاں لاتا تھا۔ اس کے مطابق یہ انتہائی مشکل کام ہے جس میں ہر وقت جان کا خطرہ ہوتا ہے۔دکانداروں کے مطابق غیر ملکی سامان کی مانگ زیادہ ہے اور خریدار اسے اکثر مقامی مال پر ترجیح دیتے ہیں۔ کارخانو مارکیٹ کے ایک دوکاندار نے بتایا کہ باہر کی اشیا معیار میں اچھی اور قیمت بھی مناسب ہوتی ہیں۔کسٹم حکام اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کارروائیاں کر رہے ہیں جبکہ پولیس اور ایکسائز ٹیمیں بھی معمول کی ڈیوٹی کے دوران اسمگلنگ کا مال پکڑ کر کسٹم کے حوالے کردیتی ہیں۔ کسٹم نے جنوبی اضلاع میں گزشتہ 4 ماہ کے دوران ہونے والی کارروائیوں کی رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق گزشتہ اس عرصے کے دوران پکڑی گئی اشیا کی مالیت 2 ارب 75 کروڑ روپے بنتی ہے۔کسٹمز کلکٹرڈاکٹر کرم الٰہی نے کارروائیوں کے حوالے سے مزید بتایا کہ گزشتہ 4 ماہ کے دوران جنوبی اضلاع میں 41 نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑی گئیں جن میں موٹر کار، ہیوی بائیکس اور دیگر شامل ہیں جبکہ پکڑی گئی، نان کسٹم گاڑیوں کی مالیت 13 کروڑ40 لاکھ روپے بنتی ہے، سمگلنگ میں استعمال ہونے والی گاڑیاں بھی تحول میں لی گئیں جن کی مالیت 80 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مختلف مقامات پر ناکا بندی کر کے چیکنگ کے دوران 25 ہزار 511 امریکی ڈالرز اور 4 لاکھ 44 ہزارلیٹراسمگل شدہ ایرانی تیل برآمد کیا گیا، ایک کروڑ67 ہزار ڈنڈی سگریٹ (غیرملکی برانڈ) جن کی مالیت 19کروڑ 82 لاکھ روپے بنتی ہے برآمد کیے اور14کروڑ74لاکھ کی اسمگل شدہ اشیا جن میں کپڑا،ٹائرز،چائے ،برقی آلات،ادویات ،خشک دودھ ، موبائل فونز شامل ہیں بھی کسٹم حکام نے برامد کیے ہیں۔گزشتہ 4 ماہ کے دوران ضبط شدہ اشیا کی مالیت گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہے جبکہ حکام کے مطابق گزشتہ سال ان ہی 4 مہینوں کے دوران صوبے کے جنوبی اضلاع میں مجموعی طور پر صرف41 کروڑ 74 لاکھ روپے مالیت کا سامان پکڑا گیا تھا۔ڈاکٹرکرم الٰہی نے کہا کہ کسٹم ایکٹ کے مطابق سمگلروں سے پکڑے گئے سامان کی نیلامی ہوگی جس کے لیے شفاف طریقہ کار اپنایا جائے گا۔

Related Articles

Back to top button