عمران کی گرفتاری سے PTIکو فائدہ ہوا یا نقصان؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملکی سیاست میں مزید ہیجان خیزی اور شدت کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مک میں تقسیم اور اختلافات کی شکار سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات میں شدت پسندی اور تشددکا عنصر شامل ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد عمرانڈوز کے پرتشدد مظاہروں اور عسکری املاک کو نقصان پہنچانے سے حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں اور پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں تقسیم میں اضافہ ہو گا جبکہ دوسری طرف عمران خان کی گرفتاری کا سایسی فائدہ تو تحریک انصاف کو ملے گا تا ہم ان کی حراست کے عرصے میں طوالت پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی ہے۔
پاکستان میں بہت سارے سیاسی پنڈتوں کے خیال میں عمران خان اپنی سیاسی شہرت کے عروج پر ہیں اور پاکستان میں عموماً سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد انکی شہرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس گرفتاری سے پی ٹی آئی کو نقصان نہیں ہوگا بلکہ سیاسی فائدہ ہوگا۔
لاہور میں مقیم سیاسی امور کے ایک تجزیہ نگار احسن رضا بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نےبتایا، ”عمران خان مزاحمت کے استعارے کے طور پر سامنے آئے ہیں اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست دان ہمیشہ عوام میں مقبولیت پاتا ہے۔ خصوصاﹰ اگر وہ اس مخالفت کی وجہ سے جیل جاتا ہے، تو اس کی شہرت میں مذید اضافہ ہوجاتا ہے۔‘‘
تاہم پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت عمران خان کی سلامتی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی اور پی ٹی آئی کے ایک رہنما جمشید اقبال چیمہ کے مطابق ”ہمیں خدشہ ہے کہ عمران خان پر نہ صرف زیادہ سے زیادہ مقدمات بنا کر انکو گرفتار رکھا جائے گا بلکہ ان پر تشدد بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور انہیں جسمانی طور پر نقصان بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔‘‘ جمشید اقبال چیمہ کے مطابق اس گرفتاری کے پیچھے صرف حکومت نہیں ہے بلکہ ان کی سہولت کار یعنی اسٹیبلشمنٹ بھی ہے۔
واضح رہےکہ پی ٹی آئی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور کئی رہنماؤں پر مقدمات ہیں لیکن کئی حلقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا رویہ پی ٹی آئی کی طرف نرم رہا ہے۔ تاہم اب عسکری قیادت کے خلاف الزام تراشیوں اور فوجی املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اس رویے میں بتدریج سختی میں بدل رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے لئے برا وقت آرہا ہے۔ تاہم دوسری جانب حکومت کی جانب سے پرتشدد مظاہرے کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ نگار ڈاکٹر سرفرازخان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کوئی مضبوط نظریاتی سیاسی جماعت نہیں بلکہ یہ بنیادی طور پر ایسے سیاستدانوں کی تنظیم ہے، جو اپنے مفادات کے تحت ہمیشہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سرفراز نے مزید بتایا، ”اگر عمران خان کو طویل عرصے تک گرفتار رکھا گیا، تو پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی اور اس میں جو سیاستدان پہلے اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہے اور پی ٹی آئی میں آئے ہیں، وہ تحریک انصاف چھوڑ کر مختلف پارٹیوں کی طرف چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ قیادت کے حوالے سے بھی اختلافات ہو سکتے ہیں، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، عمران خان کی اہلیہ اور دوسرے پارٹی کے لوگ قیادت کے لیے لڑنا شروع ہوجائیں گے۔‘‘
دسوری جانب سینیئر تجزیہ کار نوید چوہدری کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے اداروں کے خلاف بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی اور ان کے غیر مفاہمانہ رویے کی وجہ سے حالات اس حال تک پہنچے۔ ان کے بقول احتجاجی مظاہروں میں شریک نوجوانوں کی تعداد غیر معمولی نہیں تھی، ”ایجنسیوں کو پہلے سے علم تھا کہ احتجاجی کارکنوں کو کنٹونمنٹ کی طرف بھیجا جائے گا اور وہ حساس عمارتوں پر ہلہ بولیں گے، اس لیے انہوں نے کسی بھی جگہ پر ان کا راستہ نہیں روکا لیکن ان تمام کارکنوں کی ویڈیوز بن گئی ہیں اور انہیں اپنی قانون شکنی کا حساب دینا ہو گا۔‘‘
سیاسی مبصرین کے بقول اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بدھ کے روز اس احتجاج میں کتنے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ نوید چوہدری کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تحریک جاری رہی تو پھر دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے بیانیے کے حق میں اپنے کارکنوں کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہوں گی، جس کے بعد پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔