جسٹس فائزعیسی کے حق گو دادا کو افغانستان کیوں چھوڑنا پڑا

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج اور آئندہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے دادا قاضی جلال الدین کو بھی پوتے کی طرح اپنی حق گوئی کی پاداش میں وقت کے حکمران کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا . قندھار میں جج اور لائقِ احترام بزرگ شاہ مسعود بابا کی اولاد ہونا بھی جلال الدین کے کام نہ آیا اور وہ بادشاہ کے غضب سے بچنے کے لیے افغانستان سے اس سرزمین کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جو آج پاکستان کہلاتی ہے. یہ معلومات سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی اپنی ایک تحریر میں دی ہیں. وہ بتاتے ہیں کہ میرے دادا قاضی جلال الدین کلمہ حق کہنے کی پاداش میں پشین کی جانب مہاجرت پر مجبور ہوئے جو آج پاکستان میں شامل ہے۔ میرے دادا نے ہزارہ برادری سے نسلی اور مذہبی اقلیت کی بنیاد پر روا رکھے گئے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا، جس نے افغانستان کے شاہ عبدالرحمٰن کو ناراض کر دیا۔ قندھار میں جج اور لائقِ احترام بزرگ شاہ مسعود بابا کی اولاد ہونا بھی جلال الدین کے کام نہ آیا، نتیجتاً انہیں بادشاہ کے غضب سے بچنے کے لیے افغانستان کو خیر باد کہنا پڑا۔ انہوں نے افغانستان سے متصل پشین کے علاقے میں پناہ لی جو اس وقت برطانوی ہند کا ایک خاک آلود گوشہ تھا۔ نئی سرزمین پر پہنچے تو قاضی جلال الدین نے اپنے لیے مٹی کا ایک دو منزلہ گھر بنوایا، جو 120 سال قبل بلوچستان میں کبھی نہیں بنایا گیا تھا۔ انہوں نے ترین قبیلے کی ایک مقامی خاتون سے شادی کی، اللہ نے انہیں یک بعد دیگرے تین بیٹوں سے نوازا۔ ان بچوں کے نام انبیاء کرام کے نام پر بالترتیب محمد موسیٰ، محمد عیسٰی اور محمد اسماعیل رکھے گئے۔ افغانستان سے ہجرت کرتے وقت ان کے ہمراہ زاد راہ کے علاوہ 100 سے زائد چنار کے پودے بھی تھے، جو دیگر سامان کے ساتھ اونٹ پر لدے تھے۔ آج بھی پشین اور کوئٹہ کی لٹن روڈ، موجودہ زرغون روڈ کے اطراف ساڑھے 5 ہزار فٹ کی بلندی پر جھلسا دینے والی دھوپ میں چھتنار کا کام دینے والے چنار کے سایہ دار درخت اس مہاجرت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔

جسٹس فائز لکھتے ہیں کہ جلال الدین کے بچے اس وقت یتیم ہو گئے جب سب سے بڑے لڑکے کی عمر 10 سال بھی نہیں تھی۔ ان کی پُرعزم اَن پڑھ ماں نے ان کی پرورش کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ بہترین تعلیم حاصل کریں۔ سب سے بڑے بیٹے موسیٰ نے ایکسیٹر کالج، آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی۔ سب سے کم عمر، اسماعیل لندن میں پائلٹ بنا اور تب اورینٹ ایئرویز کے لیے اڑان بھری جب مقامی ہواباز بہت کم ہوا کرتے تھے۔ جلال الدین کے منجھلے بیٹے یعنی میرے والد محمد عیسیٰ نے لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 5,877 میل کی مسافت پر برطانوی سلطنت کے دارالحکومت تک پہنچنے کا مطلب تھا؛ بولان میل کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی کی بندرگاہ تک 20 گھنٹے ٹرین کا سفر، پھر اسٹیم بوٹ کے ذریعے ساؤتھمپٹن کی بندرگاہ اور پھر کہیں جاکے لندن۔

میرے والد بلوچستان کے پہلے بیرسٹر تھے۔ قانون کی تعلیم کے دوران انہوں نے 1932ء میں گول میز کانفرنس کے شرکاء کے لیے منعقدہ عشائیہ میں شرکت کی اور ممتاز بیرسٹر سیاستدان محمد علی جناح اور فلسفی شاعر ڈاکٹر محمد اقبال سے ملاقات کی، اس ملاقات نے ان پر دیرپا اثر چھوڑا۔ جناح سمجھتے تھے کہ تمام شہریوں کے لیے مناسب آئینی تحفظات کے بغیر برصغیر پاک و ہند کے تناظر میں جہاں مختلف نسلوں اور عقائد کے ماننے والے آباد ہیں، ’فقط جمہوریت‘ تباہ کن ثابت ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ان لوگوں کے تحفظ اور انہیں استحصال سے بچانے اور ان کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کے پُرجوش حامی بن گئے۔ تاہم ان کی کوششوں کو بار آور نہیں ہونے دیا گیا۔

جسٹس فائز بتاتے ہیں کہ انڈین نیشنل کانگریس کے بانیوں میں ممتاز ہندو شامل تھے۔ ایک کثیر المذہبی خطہ میں، کانگریس نے ’گنیش‘ اور ’شیو‘ کا جشن مناتے ہندو تہواروں کو متعارف اور منظم کیا لیکن دوسرے عقائد کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

کانگریس کا پہلا اجلاس 1885ء میں بمبئی (مجودہ ممبئی) میں منعقد ہوا، جہاں ہندوستان کی کل آبادی کے 25 فیصد پر مشتمل مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے صرف 2 مسلمانوں کو مدعو کیا گیا۔

مسلمانوں کو بیگانگی کا شکار کیا گیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ سیکولرازم کا پرچار کرنے کے برخلاف، برطانوی ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے بے حسی کے ساتھ مہاتما (موہن داس گاندھی) اور پنڈت (جواہر لال نہرو) جیسے ہندو مذہبی القابات اپنائے۔ ایک ایسے وقت میں جب مذہبی اور نسلی برتری کی وکالت کرنے والوں نے دنیا کو جنگ سے دوچار کر رکھا تھا، کانگریس کے لیے جمہوریت کا مطلب یہ تھا کہ اکثریتی ہندو آبادی تنہا ہی مستقبل کا تعین کرے گی۔ کانگریس کی ہٹ دھرمی نے محمد علی جناح کی زیرِ قیادت آل انڈیا مسلم لیگ اور دیگر لیگی رہنماؤں کو جوش بخشا، اور اقلیتی مسلم کمیونٹی کو امید فراہم کی، جس نے ناانصافیوں، امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کے خوف کے بغیر زندگی کا تصور کیا تھا۔

لندن سے واپسی پر میرے والد نے اپنی قانونی لیاقت اور پیشہ ورانہ مہارت کو ان اعزازات اور دولت کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیا جو ان کا پیشہ انہیں دے سکتا تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے اسے سماجی تبدیلی لانے کے لیے استعمال کیا اور پاکستان کی وکالت کرنے کے نامانوس اور غیر یقینی سیاسی میدان میں قدم رکھا۔

برصغیر کے مسلمانوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی پختہ ضمانتوں کے بغیر برطانوی راج کے خاتمہ کی صورت میں وہ ہمیشہ کے لیے اکثریتی آبادی کی خواہشات کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ کانگریس نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایسی یقین دہانیاں فراہم نہیں کیں جو اقلیتوں کو آزادی اور وقار کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم کے بغیر اور مسلمان ہونے پر پشیمانی کے بغیر رہنے کا باعث بنتیں۔

جسٹس فائز عیسی کہتے ہیں کہ کانگریس مسلمانوں کے جائز تحفظات کو دور کرنے میں ناکام رہی، اس لیے انہوں نے مسلم لیگ کی طرف ایک علیحدہ وطن کے حصول کی خاطر دیکھا- ایک ایسی سرزمین جہاں سب کے ساتھ یکساں اور احترام کا سلوک کیا جائے، جہاں کوئی مذہبی ظلم، کوئی امتیاز نہ ہو اور جہاں تمام لوگ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہوں۔ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے حوالے سے محمد علی جناح کی بصیرت لائق التفات تھی۔

مسلمان مردوں اور عورتوں نے ایک آزاد ریاست کے لیے ووٹ دیا اور پاکستان 1947ء میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ آبادی والے مسلم ملک کی حیثیت سے ابھرا۔ خواب کو تو حقیقت مل گئی لیکن پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد بے ثمر ہی رہا۔ آخر میں جسٹس فائز عیسی کہتے ہیں کہ 75 سال قبل پاکستان ہمیں ووٹ کے ذریعہ ملا تھا۔ امتیاز کا پرچار کرنے، تفرقہ کے بیج بونے، عدم برداشت کو جنم دینے اور جمہوریت کو اٹھا پھینکنے والی غیر جمہوری قوتوں نے ملک کو توڑ دیا اور بچا کچھا ملک کمزور کرکے رکھ دیا۔

یہ وہ حالات ہیں جن میں ہمیں رواداری اور جمہوریت پر مبنی نظریے کو دوبارہ دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

Back to top button