پاکستان میں کرپٹ ججز کیخلاف کارروائی کب ہو گی؟

دنیا بھر کی عدالتی تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر جہاں بہت سے جج قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے وہیں کئی منصفوں کو قانون کی پکڑ سے کوئی دلیل اور دعویٰ نہ بچا سکا۔

چند سال قبل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں تسلیم کیا تھا کہ سابق پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ جس سات رکنی جج نے بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا وہ دبائو میں تھا۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ ایک شاذ ونادر ہونے والا واقعہ تھا جب ایک مدعی نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے خلاف ان کے اس اعتراف پر مقدمے کے اندراج کےلیے درخواست دی تھی۔ تاہم ڈویژن جج نے پٹیشن کو خارج کردیا تھا۔اس پر25 فروری 2010 کو اس وقت کے صدر آصف علی زردری نے کوئٹہ میں کہا تھا کہ ’’ مجھے یقین ہے کہ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل تھے۔‘‘جسٹس نسیم 2015 کو اپنے اس عمل پر جوابدہ ہوئے بغیر دارفانی سے کوچ کر گئے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور پی ٹی آئی کے وکیل اور پنجاب کے سابق گورنر خواجہ طارق رحیم کی حالیہ لیک ہونے والی مبینہ گفتگو نے پاکستان میں انصاف کے نظام پر کئی سوال اٹھا دیے ہیں۔چند دن قبل سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عمرعطابندیال کی ساس اور خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کے مابین ہونے والی مبینہ ٹیلیفونک گفتگو سن کربھی کئی لوگوں کے کان کھڑے ہوئے ہوں گے اور اس سے بھی پتہ چلتا ہےکہ کیسے اعلیٰ ترین ججوں کے اہل خانہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے اہم ترین اور تاریخ بدل دینے والے فیصلوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

ایک عشرہ قبل ایسی ہی آڈیولیک ایک حاضر سروس جج ملک قیوم اور اسوقت کے نیب کے سربراہ سیف الرحمٰن کی گفتگو لیک ہوئی تھی اور اس سے بھی ایک بھرپور بحث چھڑی تھی کہ کیسے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری کے خلاف فیصلوں کو ان شخصیات کے کہنے پر توڑمروڑ کرپیش کیاجاتا تھا۔اور پھر جسٹس ملک قیوم کی موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ بھی ایک آڈیو لیک ہوئی تھی جس نے ایک تنازع کھڑا کر دیا تھا لیکن اس وقت بھی کسی کو جوابدہ نہیں بنایا گیا نہ ہی اب ایسے کوئی شواہد ہیں ہے کہ چیف جسٹس بندیال یا ثاقب نثا ر کو قانون کے کٹہرے میں لایاجاسکے گا حالانکہ ماضی قریب میں مریم نواز کی جاری کردہ ویڈیو کی بنیاد پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو لاہور ہائیکورٹ نےعہدے سےسبکدوش کردیا تھا ۔یہ ویڈیو جو مریم نواز نے جاری کی تھی اس میں وہ یہ اعتراف کرتے دکھائی دیتےہیں کہ انہوں نے دبائو میں آکر نوازشریف کو سزا سنائی ۔ارشد ملک کو یہ تسلیم کرتے سناجاسکتا ہے کہ وہ ایک قابل اعتراض حالت میں پکڑے جانے کے بعد بات ماننے پر مجبور تھے۔

اگر پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے ججز کی بات کی جائے تو رائٹرز ایجنسی کے مطابق دس میں سے نو جج  ایسے ہیں جنہوں نے کبھی جانبداری برتی و ہ اپنے عہدوں پر برقرا رہے اور ان میں الباما کا وہ جج بھی شامل ہے جس نے سینکڑوں غریب اور سیاہ فام لوگوں کو غیر قانونی طور پر جیلوں میں بھیجا تھا۔

رائٹرز کے مطابق 2008 سے 2019 کے بارہ برس میں 1509 ایسے مقدمات سامنے آئے جن میں ججوں پر ضابطے کی خلاف ورزی کے الزامات لگے اور انہیں یا تو مستعفی ہونا پڑا، یا ریٹائر کر دئیے گئے یا ان کے خلاف کھلی تادیبی کارررائی کی گئی۔ 3613 کیسز ایسے بھی تھے جن میں ریاستوں نے ججز کو سرزنش تو کی لیکن اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔

اگرہمسایہ ملک بھارت کی بات کی جائے تو نومبر 2002 میں کرناٹک ہائی کورٹ کے تین جج دو خواتین وکلا اور ایک اور خاتون کے ساتھ ایک ریزارٹ میں موجود تھے جب پولیس پہنچی لیکن اس موقع پر کوئی کارروائی نہیں کی ۔ان کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی لیکن وہ مسترد کر دی گئی.ستمبر 2010 میں بھارتی وزیرقانون شانتی بھوشن نے سپریم کورٹ میں اس وقت سنسنی پیدا کر دی جب انہوں نے 8 سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کے بارے میں کہا کہ وہ کرپٹ تھے۔

آئیے اب چند ایسے مقدمات کا جائزہ لیتے ہیں جن میں ججوں کو ضابطہ اخلاق یا بدعنوانی پر سزائین دی گئیں۔

امریکا میں آخری مرتبہ سپریم کورٹ کے جج سیموئیل چیز کا مواخذہ کیا گیا جو 1804 میں ہوا تھا۔انہیں امریکی سینیٹ نے برخواست کیا تھا۔امریکا کی پوری تاریخ میں 15 وفاقی ججوں کا مواخذہ ہوا جن میں سے 8 اپنے عہدوں سے سبکدوش کر دئیے گئے۔2010 میں ایک جج پورٹیس تھامس نے رشوت لینے پراپنا منصب کھویا۔ ایک امریکی جج کو لاس ویگاس میں جوا کھیلنے پر نکالاگیا۔

جون 2022 مین تیونس کے صدر کائس سعید نے 57 ججوں کو کرپشن اور دہشتگردی کی معاونت کے الزام میں عدلیہ سے نکال دیا۔2023 میں پاکستان کی پشاور ہائیکورٹ نے ایک سشین جج اصغر شاہ کو کرپشن کے الزامات میں برطرف کیا اور اس سے ایک کروڑ پچاس لاکھ برآمد کرنے کا حکم دیا۔نیب کے سینیر جج ارشد ملک کو سابق وزیراعظم شہبازشریف کے خلاف کرپشن کے الزامات پر بلیک میلنگ کی بات کرنے پر ہٹادیا گیا۔2012 میں خانیوال کے جج مسعود بلال نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب ان کی ایک لڑ کی کے ساتھ ڈانس کرنے کی ویڈیو یوٹیوب پرآگئی ۔اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے کہا کہ عدالت نے اپنی کارروائی جج کے استعفے سے پہلے شروع کردی تھی

پاکستان میں حالیہ دنوں سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر اکبر نقوی کیخلاف کرپشن کے الزامات پر مبنی 7 ریفرنسز سپریم جوڈیشل کونسل میںجمع کرائے جا چکے ہیں تاہم چیف جسٹس بندیال بغیر تحقیقات کے نہ صرف جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو کلین چٹ دے رکھی ہے بلکہ ان کیخلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے بھی گریزاں ہیں اور اس بات کا برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کیخلاف جمع کرائے گئے ریفرنسز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

Related Articles

Back to top button