کریک ڈاؤن کے بعد فوج مخالف سوشل میڈیا ٹرینڈ نیچے آ گیا

عمران خان کی فراغت کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چلائی گئی نفرت انگیز مہم ریاستی کریک ڈاؤن کے بعد پہلے نمبر سے چوتھے نمبر پر آ گئی ہے۔
باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ عمران دور حکومت میں حکومتی پالیسیوں کے ناقد صحافیوں کو گرفتار کرنے اور انہیں ہراساں کرنے میں ملوث ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا ڈائریکٹر بابر بخت قریشی فوجی قیادت کے خلاف نفرت پر مبنی ملک گیر مہم روکنے کی بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھا، چنانچہ 13 اپریل کو اسے فارغ کر دیا گیا ہے۔ موصوف پچھلے کئی برسوں سے اس عہدے سے چمٹ کر عمران خان کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کر رہے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف حالیہ مہم میں بھی سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ فوج مخالف مہم میں تیزی تب آئی جب سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حمایتیوں نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ عمران خان کو اقتدار کی آخری رات وزیر اعظم ہاؤس میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر عمران خان کی ایسی تصاویر بھی پوسٹ کی جا رہی ہیں جن میں ان کے چہرے پر تشدد کے نشانات دکھائی دیتے ہیں، ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ایسی تمام تصاویر فوٹو شاپ کے ذریعے ایڈٹ کی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ فوجی قیادت کے خلاف نفرت انگیز مہم کے خاتمے کی ذمہ داری اب حساس اداروں نے سنبھال لی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی سربراہی میں 12 اپریل کو ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کی کانفرنس میں بھی سوشل میڈیا پر فوج کو بدنام کرنے کے لیے چلائی گئی پروپیگنڈا مہم کا سختی سے نوٹس لیا گیا اور کہا گیا کہ اس طرح کی مہم ادارے اور سوسائٹی کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ فوجی ترجمان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی افواج ہمیشہ ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اور وہ کسی سمجھوتے کے بغیر اپنے دفاع کے لیے ایسا کرتی رہیں گے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فوجی قیادت نے ہر قیمت پر آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ یہاں فوج کے ترجمان کا اشارہ حالیہ عدالتی احکامات کی جانب تھا جن کے نتیجے میں تحلیل کی گئی قومی اسمبلی بحال ہوئی۔
دوسری جانب ایف آئی اے نے ایجنسیوں کی نگرانی میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے آرمی چیف اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے الزام میں 12 افراد کو حراست میں لیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف کے خلاف بدزبانی پر مبنی سوشل میڈیا ٹرینڈ بنانے کے الزام میں لاہور کے علاقے سبزہ زار سے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جس کا تحریک انصاف سے تعلق ثابت ہو گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ فوج کے خلاف نفرت انگیز پوسٹیں اور ٹویٹر ٹرینڈ چلانے والا مقصود عارف نامی شخص پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا ایک اہم عہدے دار ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا اور ٹویٹر ٹرینڈ اس نے پارٹی قیادت کے کہنے پر چلایا۔ اس کے علاوہ گجرات، لاہور، پشاور اور کراچی سے بھی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق سائبر کرائم وِنگ نے سوشل میڈیا پر دو ہزار سے زائد اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے، جن سے فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی۔
ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پر یہ اکاؤنٹس حالیہ ہفتوں میں بنائے گئے۔ حساس اداروں کے خلاف مہم چلانے والے 50 ہزار دیگر پیجز کی بھی نشان دہی کر لی گئی ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق حساس اداروں نے اس ضِمن میں ایف آئی اے کو ان اکاؤنٹس کی تفصیلات دینے کے علاوہ ان علاقوں کی بھی نشاندہی کی تھی جن سے ان اکاؤنٹس کو چلایا جارہا تھا۔
حکام کے مطابق ان معلومات کی روشنی میں کارروائی کرتے ہوئے 12 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ایف آئی اے نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت 9 مختلف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر مہم چلائی جارہی تھی جس میں تیزی چند روز قبل عدالتی فیصلے کے بعد آئی جس میں سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق شہباز شریف نے اتوار کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو اس بارے میں واضح ہدایات جاری کی تھیں کہ ایسے افراد کے خلاف فوری طور پر کریک ڈاؤن شروع کیا جائے، جو ملک کے حساس اداروں اور ان کے سربراہوں کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں۔
ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں فوجی قیادت کے خلاف چلنے والے ٹاپ سوشل میڈیا ٹرینڈ کو توڑنے کے لیے لائحہ عمل بھی ترتیب دیا گیا۔ حساس اداروں کی طرف سے ایسے اکاؤنٹس کی تفصیلات ملنے کے بعد ان کے خلاف تادیبی کارروائی تیز کرنے کے بعد اب یہ ٹرینڈ پہلے نمبر سے چوتھے نمبر پر آگیا ہے اور اس میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق یف آئی اے اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور کے ڈائریکٹرز اور سائبر کرائم وِنگ کے عملے کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ فوری کارروائی کرتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کر کے قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم وِنگ کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ حراست میں لیے جانے والے افراد نے سوشل میڈیا پر سینکڑوں مختلف ناموں سے اکاؤنٹس بنائے ہوئے تھے، جہاں سے ملک کے حساس اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی۔ حکام کے مطابق حساس اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم میں تیزی اس وقت آئی جب گذشتہ ماہ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی۔ دوسری جانب سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق حساس اداروں کے خلاف مہم چلانے میں ان کی جماعت کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ ان کی حکومت نے نہ صرف اس کی مذمت کی تھی بلکہ ان کے دور میں ایف آئی اے کے سربراہ کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔
لیکن ایف آئی اےحکام کا اصرار ہے کہ فوج مخالف مہم پی ٹی آئی کی قیادت کے ایما پر چلائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ان کی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ ارسلان خالد کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور حکام ان کے گھر سے کمپیوٹر اور دیگر سامان اٹھا کر لے گئے۔ تاہم ایف آئی اے حکام کی طرف سے ایسی کسی کارروائی کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔ ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق حساس اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے کچھ ایسے اکاؤنٹس کا بھی پتہ چلایا گیا ہے جو کہ بیرون ممالک سے آپریٹ کیے جا رہے ہیں اور انہیں بند کروانے کے لیے بھی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
آرمی چیف سمیت اہم شخصیات کیخلاف پراپیگنڈا میں ملوث 8 ملزم گرفتار
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ فوج مخالف مہم میں تیزی تب آئی جب سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حمایتیوں نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ عمران خان کو اقتدار کی آخری رات وزیر اعظم ہاؤس میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر عمران خان کی ایسی تصاویر بھی پوسٹ کی جا رہی ہیں جن میں ان کے چہرے پر تشدد کے نشانات دکھائی دیتے ہیں، ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ایسی تمام تصاویر فوٹو شاپ کے ذریعے ایڈٹ کی گئی ہیں۔
After crackdown anti-military social media trend came down video