کیا چوہدری برادران گیم سے مکمل آؤٹ ہو چکے یا؟

متحدہ اپوزیشن کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی آفر کو بارگیننگ کے لیے استعمال کرنے کے چکر میں سیاسی کھیل سے آؤٹ ہونے والے چوہدری برادران نے اب گیم میں دوبارہ واپس آنے کی کوششںں شروع کر دی ہیں اور کافی عرصے سے علیل چوہدری شجاعت حسین متحرک ہوگئے ہیں۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کی عمران کے خلاف بغاوت کے بعد اب چوہدری برادران کی سیاسی پوزیشن کافی کمزور ہو گئی ہے اور انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ ملنے کے امکانات اور بھی معدوم ہو گئے ہیں۔ اب پرویز الہی کا عثمان بزدار کی جگہ وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا ایک ہی چانس ہے کہ علیم خان کی جگہ جہانگیر ترین گروپ پرویز الٰہی کی حمایت کر دے۔
یاد رہے کہ جہانگیر ترین گروپ کے سامنے آنے کے بعد چوہدری برادران نے ہنگامی بنیادوں پر اپوزیشن کے ساتھ رابطے بحال کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ پچھلے کافی عرصے سے علیل چودھری شجاعت حسین نے اسلام آباد پہنچ کر مولانا فضل الرحمان کو آفر کی کہ اپوزیشن والے جن شرائط پر بھی پرویز الہی کو وزیر اعلی بنانا چاہیں، بنا سکتے ہیں، ہمیں ہر شرط قبول ہوگی۔ تاہم جواب میں مولانا کا موقف تھا کہ آپ لوگوں نے جواب دینے میں بہت دیر کردی جس کے بعد ہم نے متبادل آپشنز پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
مولانا فضل الرحمان نے شجاعت حسین کو بتایا کہ آپ کو وزارت اعلیٰ کی آفر میں نے اور آصف زرداری نے کی تھی جس پر حتمی فیصلہ نواز شریف نے کرنا تھا لیکن آپ نے آخری لمحات میں وعدے کے برخلاف شہباز کے گھر جانے سے بھی انکار کر دیا۔ لہذا اب معاملات کافی خراب ہو چکے ہیں اور مجھے شریف برادران سے دوبارہ بات کرنا ہوگی۔
دوسری جانب یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے پر چوہدری برادران کے مابین اختلافات پیدا ہو چکے تھے جن کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ پنجاب کی آفر پر بروقت فیصلہ نہ ہو پایا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی جانب سے مرکز میں عمران خان کے خلاف مہم جوئی کا حصہ بننے کے عوض مسلم لیگ ق کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کی آفر پر پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل چوہدری مونس الٰہی نے ڈبل گیم کھیلنے کی کوشش کی جس کے باعث ق لیگ گیم سے تقریباً آؤٹ ہو گئی۔
ق لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور ان کے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی چوہدری سالک حسین کے علاوہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ اور سینیٹر کامل علی آغا نے اپوزیشن اتحاد کا ساتھ دینے اور پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کے لئے ہاں کہنے کا مشورہ دیا تھا۔ تاہم مونس الٰہی نے ضرورت سے زیادہ چالاکی دکھاتے ہوئے کپتان سے بھی اچھی ڈیل لینے کی کوششیں شروع کر دیں۔
مونس الٰہی نے وزیر اعظم سے ملاقات کرکے پارٹی لائن سے ہٹ کر وزیر اعظم کو مکمل تعاون کی یقین دھانی کروائی اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے ہاں کھانے پر جانے کی دعوت بھی منسوخ کردی۔ اسی دوران جہانگیر ترین گروپ اور عبدالعلیم خان کا دھڑا بھی میدان میں آگیا جس نے عثمان بزدار کی چھٹی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ پرویز الٰہی کو نیا وزیر اعلیٰ ماننے سے بھی انکار کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ چوہدریوں کے اس عجیب و غریب سیاسی طرزِ عمل نے آصف زرداری اور فضل الرحمان کو بھی ناراض کردیا جس کے بعد چوھدری شجاعت حسین نے اپوزیشن اتحاد سے دوبارہ رجوع کا فیصلہ کیا۔ ضعیف العمری کی باوجود شجاعت حسین پرانی آفر مانگنے فضل الرحمان کے گھر پہنچے لیکن لگتا ہے کہ اب چوہدریوں کی دال گلنے والی نہیں۔
دوسری جانب ترین گروپ کے نمائندوں نے پرویز الہی سے ملاقات کی ہے جس کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی کو ایک بار پھر امید لگ گئی ہے کہ وہ وزارت اعلی کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں اگر اپوزیشن اتحاد اور جہانگیر ترین گروپ اکٹھے ہو گئے تو نئی سیاسی صورتحال میں پرویز الٰہی سپیکر شپ سے بھی ہاتھ دھوتے دکھائی دیتی ہے۔ لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کے رسیا چوہدری برادران نئے سیاسی سیٹ اپ میں اپنی جگہ بنا پاتے ہیں یا راندہ درگاہ قرار پاتے ہیں۔
اس سے قبل جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر سمجھے جانے والے پرویز الٰہی کو سیاسی اکھاڑے میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے کوئی بھی بڑی چال چلنے سے پہلے گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ آئندہ کی سیاسی صورت حال میں ان کو بظاہر ساتھ ملانے کی کوشش بھی کی۔ ایسے میں یوں دکھائی دے رہا تھا کہ ملکی اور صوبائی سیاست میں گجرات کے چوہدری ایک مضبوط کھلاڑی کے طور پر موجود ہیں۔
لیکن اب صورت حال مکمل بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ سینیئر صحافی سلمان غنی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’علیم خان کی چال نے اس وقت پنجاب اور وفاق میں پرویز الٰہی کی سیاست کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ پرویز الہی کو اپنی اسپیکر شپ بچانے کے لیے علیم خان کی بطور وزیراعلی حمایت کرنی پڑ جائے۔
اس وقت پنجاب میں ترین اور علیم خان گروپ کے پاس 35 سے 40 اراکین صوبائی اسمبلی ہیں جبکہ پرویزالٰہی کے پاس 10 ایم پی ایز ہیں جنکی بدولت وہ ساڑھے تین سال سے سپیکر شپ انجوائے کر رہے ہیں۔ یہ ایک اچھی سیاست تھی کہ 10 سیٹوں کے ہوتے ہوئے آپ اتنے بڑے عہدے کو اتنے سال اپنے پاس رکھیں لیکن اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔
سلمان سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد تب جمع کروائی جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ دو سیاسی محاذوں پر بیک وقت تحریک انصاف کو انگیج کرسکتے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن کا اصل ٹارگٹ ایک ہی ہے البتہ محاذ دو کھول دیے گئے ہیں، ایک محاذ پنجاب میں کھولا گیا ہے اور دوسرا وفاق میں۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پنجاب کے محاذ پر سیاسی لڑائی بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور بظاہر جو صورت حال نظر آرہی ہے اس میں لگتا ہے کہ اپوزیشن نے تگڑا ہوم ورک کیا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ شاید پنجاب میں بھی عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد تب ہی پیش کردی جائے گی جب وفاق میں پیش ہوگی، لیکن ترین گروپ اور علیم خان کا اچانک منظرعام پر آ جانا اس سے بھی بڑی خبر ہے۔ اس ڈویلپمنٹ سے ایک تو بزدار کی حکومت کو کمزور کیا گیا ہے اور دوسرا پرویز الہٰی کی سیاست کو بھی محدود کیا ہے۔
ایک تولہ سونےکی قیمت 1 لاکھ 31 ہزار 400 روپے ہوگئی
انہوں نے کہا کہ کچھ دن پہلے پرویز الٰہی پنجاب میں سیاست کا محور سمجھے جارہے تھے لیکن اب ان کی اہ
میت بہت کم ہوگئی ہے۔ انکے خیال میں چوھدری شجاعت نے پرویز الہیٰ کی غلطی سدھارنے کے لئے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات تو کی ہے لیکن ب چوہدریوں کی سیاسی حیثیت کافی کم ہو گئی ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ مستقبل کی سیاست میں وہ ویسا موثر کردار ادا نہیں کر پائیں گے جیسا کہ وہ ماضی میں ادا کرتے رہے ہیں۔
Are the Chaudhry brothers completely out of the game? Urdu