مشترکہ اجلاس میں پارلیمانی کارروائی کو پاؤں تلے رونداگیا

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں فنانشل ایکشن ٹاسک (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق سمیت دیگر بلوں کی منظور پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج ملکی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا. پارلیمنٹ کےمشترکہ اجلاس میں رولز کو پاؤں تلے رونداگیا۔ اسپیکر نے آج ریڈ لائن عبور کرلی، اے پی سی میں حکومت کا فیصلہ کریں گے. انھوں نے مزید کہا کہ اسپیکرنے اپوزیشن کی ترمیم پربحث نہیں ہونے دی۔ذاتی نہیں ملکی مفادات کی بات کررہے ہیں۔۔چاہتے ہیں شہریوں کوبلاوجہ تھانوں میں بند نہ کیاجائے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ اسپیکرنےاپوزیشن لیڈرکوبھی بولنےکی اجازت نہ دی۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے متحدہ اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا اور پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے کہا کہ ‘ایف اے ٹی ایف سے متعلق حالیہ دنوں میں جو بل منظور کروائے گئے ہیں اس میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اپنے پاکستانی ہونے کا بھرپور اظہار کیا’۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے اپنی ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر ایف اے ٹی ایف کے بل کا ساتھ دیا تاکہ پاکستان کے قومی مفاد پر کوئی قدغن نہ آئے۔شہباز شریف نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے پر یکسوئی سے حکومت کے ساتھ کھڑے تھے تاکہ مخالفین اور پاکستان کے خارجہ معاملات میں دشمنوں کو کوئی موقع نہ ملے اور تندہی سے کام کیا۔ان کا کہنا تھا کہ آج جو ترامیم کی گئیں اس میں وقف املاک بل پر کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن حکومت نے اسپیکر کو حکم دیا اور انہوں نے تمام حدوں کو پھلانگ دیا۔اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ میں اسپیکر سے سخت احتجاج کروں گا کیونکہ انہوں نے مجھے بولنے کا موقع نہیں دیا، میں پہلی مرتبہ ان کے سامنے گیا لیکن میرے ساتھ بات تک نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا یہ اسپیکر کا یہ رویہ انتہائی غیرپارلیمانی ہے اور اپوزیشن اس کی بھرپور مذمت کرتی ہے اور باہمی فیصلے سے اسپیکر کے بارے میں فیصلہ کریں گے کیونکہ آج انہوں نے ریڈ لائن عبور کرلی ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج پارلیمانی روایات کے لیے سیاہ دن تھا، اپوزیشن کی جانب سے تعاون کے باوجود اس طرح کے اقدامات کیے گئے۔
انہوں نے کہا جو لوگ کہتے تھے کہ این آر او مانگ رہے ہیں، وہ جھوٹ کہتے تھے کیونکہ اپوزیشن تو پہلے سے ہی نیب تمام جھوٹے مقدمات کا سامناکررہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن گزشتہ دو ڈھائی برسوں سے حوصلے کے ساتھ جیلیں برداشت کررہی ہے لیکن ہم پاکستان کے مسائل پر بات کررہے ہیں کیونکہ مہنگائی ہوئی ہے اور لوگوں کی مشکلات میں بدترین اضافہ ہوا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے نظام کو ڈی ریل نہ کرنے کی کوشش کی اور عوامی مسائل پر بات کی لیکن اس کو جواب انہوں نے دیا ہے پوری قوم اس کی گواہ ہے اور ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم بہت جلد اے پی سی میں باہمی مشاورت سے کوئی حل نکالیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں اسپیکر کے ڈائس تک گیا مگر انہوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی، اسپیکر نے آج ریڈ لائن عبور کرلی، آج پہلی مرتبہ اپوزیشن لیڈر کو بھی ایوان میں بات نہیں کرنے دی گئی، آج اسپیکر نے مجھ سے آنکھیں ملانے سے انکار کر دیا، جمہوری تاریخ میں آج ایک سیاہ دن ہے، آج اسپیکر کا رویہ سلیکٹڈ وزیر اعظم کی ہدایات پر تھا، اسپیکر نے تمام پارلیمانی روایات کو روند دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک کالا قانون منظور کرنا چاہتے تھے، یہ 180 دن کے لیے کسی کو بھی بغیر اطلاع گرفتار کرنا چاہتے تھے، پہلے اجلاس پر بحث ہو سکتی ہے، اسپیکرنے وہ بھی نہ کرنے دی، یہ لوگ کہتے تھے کہ یہ این آر او مانگتے تھے، اپوزیشن تو پہلے ہی نیب کا شکار ہے، اپوزیشن تو پہلے ہی نیب کو حوصلے سے برداشت کر رہی ہے۔اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ اسپیکر حب میٹنگ بلاتے تھے تو ہمارے نمائندے جاتے تھے، ہم نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا لیکن اسپیکر نے ہم سب کو بہت زیادہ مایوس کیا، اے پی سی میں ہم سب بیٹھ کر حکومت کے حوالے سے فیصلہ کریں گے، ہم پتہ کروا رہے ہیں کہ کون کون ایوان سے غیر حاضر رہا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم سب یہاں پورے پاکستان سے منتخب ہو کر آئے ہیں، اہم قانون سازی تھی جس کے نتائج پورے ملک پر مرتب ہوں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ سب غیر آئینی ہے۔ بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ہمارے تمام راکین اسمبلی اور سینیٹر اہم قانون سازی کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔بلاول کا کہنا تھا کہ ہماری سینیئر اراکین اسمبلی کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسا غیرپارلیمانی رویہ نہیں دیکھا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے اعتراضات حکومت کو سمجھانے کے لیے کیا تھا کہ جو طریقہ کار اپنارہے ہیں وہ غیر آئینی ہے کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کوئی مشیر قانون سازی نہیں کرسکتا۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اسپیکر وہ بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے، غیرآئینی طریقے سے قانون سازی کی اور پھر ہرترمیم کے لیے غیرقانونی طریقہ کار اپنایا۔ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے ہمیں تو بات کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن اسپیکر کے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو جب چاہے بولنے سے روکے۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے ہمارے اپوزیشن لیڈر کو بولنے کا موقع نہیں دیا۔ترامیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انسداد منی لانڈرنگ میں گرفتاری کے قانون کو تبدیل کردیا ہے جس کا مطلب ہے کہ صرف الزام پر پولیس کو وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوگی اور گرفتار کرلے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن تو نیب اور مختلف اداروں کے ذریعے ہونے والے انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن سوچیں کاروباری افراد کا کیا ہوگا اور معاشی سرگرمیوں پر کیا اثر پڑے گا۔
بل کے حوالے سے بلاول کا کہنا تھا کہ انہوں نے اب عوام کے وارنٹ کے حق کو ختم کیا ہے، اب پولیس کو کسی کو گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ کی ضرورت نہیں ہو گی، ایک محب وطن ہوتے ہوئے ہم ترامیم پیش کرنا چاہ رہے تھے لیکن ایسا رویہ ایوان کا ماحول خراب کر دیتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے اس ڈر سے دوبارہ گنتی نہیں کرائی کہ وہ ایکسپوز ہوجائیں گے، میرا مطالبہ رہا ہے کہ ایسے معاملے پر ایک بڑا مشترکہ اجلاس ہونا چاہیے تھا، اب ہمیں سخت فیصلے کرنا پڑیں گے تاکہ جمہوریت بحال ہو، آج پاکستان کی جمہوری تاریخ پر ایک بڑا حملہ ہوا ہے، ہمیں شک ہے کہ حکومت نے آج ایڈوائزرز کو ووٹ میں شامل کیا، حکومت کو دوبارہ گنتی میں کیا مسئلہ تھا؟ ہم سب مشترکہ اپوزیشن اس پر سخت اعتراض کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مل کر ٹھوس فیصلہ لینا ہوگا کہ کیسے ہم اس کو درست کر سکتے ہیں، میرے سامنے ایک ہی راستہ عدم اعتماد کا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود نے کہا کہ اسپیکر نے خود کہا کہ تمام جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کو موقع دیا جائے گا لیکن ایک غیرمنتخب شخص اور وزیرخارجہ نے ایسا کرنے کا موقع نہیں دیا۔ان کا کہنا تھا کہ جب میں اختلاف کررہا تھا یا بی این پی اختلاف کررہی تھی بولنے نہیں دیا جاتا تھا لیکن آج ان کی نشان دہی کےباوجود اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور ترامیم کے لیے بلاول بھٹو کو بولنے کا موقع نہیں دیا گیا کیونکہ ان سے اختلاف کررہے تھے۔مولانا اسعد محمود نے کہا کہ ان سے یہ بھی برداشت نہیں ہوا کہ اپوزیشن کوئی ترمیم بھی لائیں۔انہوں نے کہا کہ کیا ہمارے ملک میں احتساب کے فیصلے وٹس ایپ پر ہوں گے اور ہماری جمہوریت اور قومی اسمبلی کے اندر فیصلے دباؤ میں ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ آج اجلاس میں وزیردفاع سمیت دیگر حکومتی وزرا اپوزیشن کی بینچوں پر آکر ان کی حمایت کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے، جس میں شدید مذمت کرتا ہوں۔مولانا اسعد محمود نے کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ اپوزیشن نیب پر سودے بازی کرناچاہتی ہے لیکن کیا ہمیں آپ کا احتساب معلوم نہیں ہے۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ رات کو 2 بجے ججوں سے کیسے فیصلے کراتے ہیں اور کیسے وٹس ایپ پر انہیں کیسے ہدایات دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت قوم کے مفاد، قومی سلامتی اور خود مختاری پر سودے بازی کررہی ہے اور عوام کے ذریعے بلیک میل کر رہی ہے۔
قبل ازیں ایوان کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے واضح اکثریت سے ایف اے ٹی ایف سے متعلق 3 بلوں سمیت دیگر بلوں کو منظور کرلیا تھا جبکہ اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button