بندیال نے بطور چیف جسٹس اپنی عزت کا جنازہ کیسے نکالا؟

 دو فروری دو ہزار بائیس کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے جسٹس عمر عطا بندیال ایک سال سات ماہ 14 دن اس عہدے پر فائز رہے۔ بطور چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے متنازع فیصلوں، عدلیہ کے مجموعی کردار اور التوا میں پڑے مقدمات کے سبب تنقید کی زد میں رہے۔ جسٹس بندیال کے فیصلوں کے خلاف پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی گئی۔ جسٹس بندیال کے دور کو متنازع فیصلوں، ججز کی تقسیم، ہم خیال ججز کو ساتھ ملاکر سینیئر ججز کو نظراندز کرنے، عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ، ذاتی پسند، ناپسند ، عدالتی بنچوں کی تشکیل میں اجارہ داری کے معاملات پر تنقید کا سامنا بھی رہا۔ لیکن انہیں تحریک انصاف کے عمرانڈو سوشل میڈیا وارئیرز اور اس کے وکلا دھڑے کی سپورٹ بھی میسر رہی۔

قانونی ماہرین کے مطابق ’جلد بازی میں دیے گئے فیصلے، پارلیمان سے پاس کردہ قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کی روایت، اپنے ہی دیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد میں ناکامی اور سپریم کورٹ کے ججوں میں واضح تقسیم‘یہ وہ چند حقائق ہیں جو پاکستان کے 28 ویں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ملک کے ’متنازع‘ چیف جسٹس صاحبان کی فہرست میں نمایاں کرتے ہیں۔پاکستان بار کونسل کے وائس چییرمین ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ ’جسٹس بندیال کے دور میں اعلیٰ عدلیہ اور بالخصوص سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان ایک واضح تقسیم نظر آئی جو اُن کی ریٹائرمنٹ تک برقرار رہی اور اس تقسیم کی وجہ سے جو بینچ تشکیل دیے جاتے تھے اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا تھا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔‘

پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست ہو، پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں انتحابات کروانے کا معاملہ ہو یا پھر رکن پارلیمان کا پارٹی پالیسیوں کے خلاف ووٹ دینے کا معاملہ، چیف جسٹس کی سربراہی میں مخصوص تین رکنی ہم خیال بینچ ہی اس نوعیت کے کیسز کو سننے کے لیے دستیاب ہوتا۔اور اس نوعیت کے کیسز میں آنے والے فیصلے ہی تھے جن کے خلاف ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج بھی کیا جہاں ایسے پلے کارڈز بھی دیکھنے کو ملے جن پر چیف جسٹس اور ان کے ہم خیال ججز کے خلاف نعرے درج تھے۔

ہارون الرشید کے مطابق سیاسی جماعتوں اور بالخصوص اس وقت کے پی ڈی ایم حکمراں اتحاد نے متعدد مواقع پر یہ الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس کا جھکاؤ ایک مخصوص سیاسی جماعت یعنی پی ٹی آئی اور عمران خان کی جانب رہا اور انھوں نے ’آؤٹ آف دی وے‘ جا کر اس جماعت کو ریلیف فراہم کیا۔

سیاسی اور قانونی حلقوں میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی شخصیت اس وقت زیادہ متنازع ہو گئی جب انھوں نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدر ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس پر 17 مئی 2022 کو فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ جو کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا تو اس کی رکنیت ختم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہو گا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے پانچ رکنی بینچ کے دو اراکین نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں 63 اے شق ایک جامع قانون ہے اور اس بارے میں کوئی نئی رائے قائم کرنا ’آئین کو از سر نو تحریر‘ کرنے کی ایک کوشش ہو گی۔سپریم کورٹ کا یہی وہ فیصلہ تھا کہ جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بنا دیا گیا۔اس عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے پنجاب اسمبلی کو 14 جنوری کو تحلیل کر دیا اور اسی طرح 18 جنوری 2023 کو خیبرپختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔

بعد ازاں تین رکنی ہم خیال بینچ نے وفاقی حکومت کو 14مئی کو پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کروانے کیلئے  الیکشن کمیشن کو 20 ارب روپے کے فنڈز اور سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا۔حکومت نے نہ صرف اس عدالتی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اس پر عمل درآمد کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا اور پھر پوری پارلیمنٹ اس وقت کے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑی ہو گئی کہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم نہیں کیے جائیں گے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نہ تو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروا سکے اور نہ ہی اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر سکے۔

سابق حکومت نے چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل پر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کی اور یہ قرار پایا کہ کسی معاملے پر از خود نوٹس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی۔تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آٹھ ججز پر مشتمل ایک لارجر بینچ بنا کر اور حکومت کا موقف سنے بغیر اس پر حکم امتناعی جاری کر دیا جو ابھی تک برقرار ہے۔اس آٹھ رکنی بینچ کے بارے میں وکلا کے ایک دھڑے کی رائے ہے کہ یہ جسٹس عمر عطا بندیال کے ہم خیال ججز تھے کیونکہ اس بینچ میں سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز جن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ کو بھی شامل نہیں کیا گیا تھا۔

 قانونی ماہرین کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے معاملے پر جو آٹھ رکنی بینچ بنایا گیا اس میں اپنے ہم خیال ججز کے علاوہ جونیئر ججز کو شامل کیا گیا، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔‘قانونی ماہر شاہ خاور کے مطابق ’اس سے بڑھ کر ججز میں تقسیم کیا ہو گی کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کو ایک مرتبہ بھی اس بینچ میں شامل نہیں کیا گیا جس کی سربراہی چیف جسٹس خود کرتے تھے۔‘

اس دورانیے میں سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان تقسیم واضح طور پر نظر آئی اور ججز میں یہ خلیج اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان تحریک انصاف کے دور میں نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مبینہ اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک دس رکنی بینچ نے سماعت کی۔چار کے مقابلے میں چھ ججز نے یہ صداتی ریفرنس مسترد کر دیا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ سات، تین کے تناسب سے آیا۔جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر اقلیتی فیصلے میں شامل تھے۔

اعلی عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کے سینیئر ججز میں تقسیم نظر آئی کیونکہ نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مؤقف تھا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو سپریم کورٹ کا جج بنایا جائے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال دیگر ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کروانا چاہتے تھے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں بھی لکھا ہے کہ عمر عطا بندیال جب سے چیف جسٹس بنے ہیں انھوں نے بینچز کی تشکیل کے حوالے سے دیگر سینیئر ججز سے مشاورت ختم کر دی ہے جبکہ اس سے پہلے یہ روایت رہی ہے کہ چیف جسٹس دیگر سینیئر ججز کے ساتھ بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کرتے تھے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیف جسٹس عمر عطا

بھارتی نوعمر لڑکے نے لمبے بالوں کا گنیز ورلڈ ریکارڈ نام کرلیا

بندیال کے دود میں زیادہ تر کام اِن چیمبر ہی کیا ہے۔

Related Articles

Back to top button