نوشکی میں بی ایل اے اور ایف سی کے مابین جنگ تیسرے روز ختم

بلوچستان کے شہر پنجگور میں 2 فروری کی شب بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے نوشکی میں ایف سی کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ بالآخر تیسرے روز 5 فروری کی شام ختم ہوگئی۔ عسکری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ تمام حملہ آوروں کو مار دیا گیا ہے اور آپریشن ختم کردیا گیا۔ دوسری جانب بلوچ لبریشن آرمی کے بیان کے مطابق حملے میں شامل اس کے تمام فدائین مارے گئے ہیں۔

دوسری جانب پنجگور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں ابھی بھی کرفیو جیسا سماں ہے اور انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ دو فروری کی شب بلوچستان کے دو مقامات پنجگور اور نوشکی میں فرنٹیئر کور کے ہیڈکوارٹرز پر مسلح افراد نے حملہ کیا تھا جس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے نوشکی اور پنجگور حملوں میں 13 دہشتگردوں اور سات فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق بھی کی تھی تاہم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کے مطابق ان حملوں میں ان کے 16 فدائین شامل تھے جو سب ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب نوشکی میں دوسرے روز تمام حملہ آوروں کو ہلاک کرنے اور آپریشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ڈپٹی کمشنر نوشکی نعیم جان گچکی کے مطابق نوشکی میں صورتحال اب کنٹرول میں ہے اور شہر میں تیسرے روز معمولات زندگی بحال ہو گئے تھے۔

پنجگور سے ایک شہری نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سنیچر کی صبح 10 بجے تک انھوں نے ایف سی ہیڈ کوارٹر کے اندر اور قرب و جوار سے فائرنگ کی آوازیں سنیں۔شہری نے بتایا کہ پنجگور میں کرفیو جیسا سماں ہے اور انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

انھوں نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ جب تک انھیں انتظامیہ کی جانب سے ہدایات موصول نہ ہوں اس وقت تک وہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔شہری کا کہنا تھا کہ شہر کی بندش کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ پنجگور اور نوشکی میں بدستور موبائل فون سروس بند ہے اور اسی طرح انٹرنیٹ سروس بھی کام نہیں کر رہی۔دونوں شہروں کی فضاؤں میں ہیلی کاپٹروں کا گشت بھی جاری ہے۔ ڈپٹی کمشنر نعیم جان گچکی نے بتایا کہ جدھر دھماکہ ہوا وہاں ایک خود کش حملہ آور نے ایک بارود سے بھری گاڑی کو ٹکرایا تھا۔انھوں نے بتایا کہ ’دھماکے کے لیے 30 سے 35 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔ گیٹ کے تباہ ہونے کے بعد دوسرے حملہ آور وہاں سے داخل ہوئے تھے۔‘

ٹیچنگ ہسپتال نوشکی کی ایک نرس نے نوشکی میں ایف سی ہیڈکوارٹر کے گیٹ پر بم دھماکے اور اس کے بعد ہونے والے حملے کی وجہ سے جس خوف اور وحشت کا شکار ہوئیں، اس کو زیادہ تر زبان سے بیان کرنے کی بجائے بس کانوں کو بار بار ہاتھ لگا کر اللہ کی پناہ مانگتی رہیں۔ڈیڑھ سے دو منٹ کی گفتگو کے دوران انھوں نے متعدد بار اپنے کانوں پر ہاتھ لگا کر کہا کہ ’اس خوفناک ماحول میں ہم نے زندگی کی امید کھو دی تھی۔‘

نرس نے بتایا کہ ’دھماکے کے خوف سے ابھی سنبھلے ہی نہیں تھے کہ شدید فائرنگ اور دیگر چھوٹے دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا۔’ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کمروں میں بیٹھے یہی سوچ رہے تھے کہ موت ابھی آئی لیکن اللہ نے ہمیں بچا لیا۔انھوں نے بتایا کہ ’رات ساڑھے سات بجے سے تین سے چار بجے تک ہم دبکے بیٹھے رہے اور گولی لگنے کے خوف کی وجہ سے اِدھر اُدھر جانے کی کوشش نہیں کی۔`وہ کہتی ہیں کہ ’خوف اور وحشت اتنی تھی کہ نہ ہم کچھ کھا سکے اور نہ ہی صبح تک سو سکے۔‘

ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر ظفراللہ مینگل کا کہنا تھا کہ وہ دھماکے کے بعد اس وقت ہسپتال پہنچے جب شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ان کے علاوہ ہسپتال کے عملے میں سے جتنے لوگوں سے ہماری بات ہوئی ان میں سے کوئی اس وقت ہسپتال کے احاطے میں نہیں تھا جب دھماکہ ہوا تھا تاہم انھوں نے ان لوگوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جن کی رہائش ہسپتال کے اندر تھی۔ہسپتال کے دورے کے دوران ہم نے دیکھا کہ کمروں میں کوئی ایسا شیشہ نہیں تھا جو بچ گیا ہو بلکہ دھماکے کی شدت کی وجہ سے بعض کمروں کی کھڑکیاں اکھڑ گئی تھیں اور دروازے بھی ٹوٹ گئے تھے۔

ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر ظفراللہ مینگل نے بتایا کہ شعبہ ایمرجنسی، گائنی اور ایک دو ضروری سروسز کو ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت کسی حد تک بحال کیا لیکن باقی ہسپتال کو کسی بھی بڑی مالی مدد کے بغیر بحال کرنا ممکن نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ یہ ہسپتال نہ صرف نوشکی شہر بلکہ اس کے گردونواح کے دیگر اضلاع کا بھی بڑا ہسپتال ہے اس لیے انھوں نے گائنی وارڈ اور ایمرجنسی کے شعبے کو فوری طور پر بحال کیا تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔‘ہسپتال کے اندر جس بڑے پیمانے پر شیشے ٹوٹ گئے تھے اس کے پیش نظر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ دھماکہ ہسپتال میں رش کے اوقات میں ہوتا تو ان شیشوں سے بہت زیادہ نقصان ہو سکتا تھا۔‘

ہسپتال کے اندر گاڑی کے بعض حصوں کے ٹکڑے اور پرزے بھی بکھرے پڑے ملے۔ ہسپتال کے عملے نے بتایا کہ گاڑی کے مختلف حصوں کے ٹکڑے ہسپتال کے مختلف مقامات پر پڑے تھے۔انھوں نے بتایا کہ ان میں سے بعض پولیس اہلکار لے گئے جبکہ بعض ٹکڑے اب بھی پڑے ہوئے ہیں۔چونکہ سرکاری حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حملہ آوروں نے دھماکے کے لیے بارود سے بھری گاڑی کا استعمال کیا اس لیے عملے کے مطابق ہسپتال کے احاطے میں پڑے گاڑی کے ٹکڑے اسی گاڑی کے ہو سکتے ہیں جس کو دھماکے میں استعمال کیا گیا ہو۔

امریکہ نے بالآخر پاکستانی سفیر کی تقرری کی منظوری دے دی

اگرچہ سول ہسپتال ایف سی ہیڈکوارٹر کے ساتھ متصل ہے لیکن آفیسرز کلب روڈ کی دوسری جانب اس سے چند فٹ کے فاصلے پر ہے۔جس طرح ہسپتال میں بہت تباہی ہوئی اسی طرح آفیسرز کلب کو بھی نقصان پہنچا۔ آفیسرز کلب کے نہ صرف شیشے ٹوٹ گئے تھے بلکہ کھڑکیوں کی لکڑیاں بھی ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔

کلب کے ایک ملازم نے بتایا کہ جب دھماکہ ہوا تو بعض آفیسرز کلب میں تھے اور ایک کھڑکی کا حصہ نکل کر ایک افسر کے کندھے پر لگ گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ دھماکے ساتھ انھوں نے ایک تیز روشنی کو بلند ہوتے دیکھا اور اس کے ساتھ ساتھ سرخ ٹکڑے نیچے گرنے شروع ہو گئے۔

کلب کے ملازم نے بتایا کہ دھماکے کے بعد ان لوگوں نے کچھ دیر کے لیے اپنا ہوش کھو دیا لیکن ابھی سنبھلنے کے کوشش کر رہے تھے کہ فائرنگ اور چھوٹے دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔انھوں نے کہا کہ ان سمیت جتنے بھی لوگ کلب میں تھے انھوں دیواروں کی اوٹ میں پناہ لی اور صبح تک کچھ کھائے بغیر خوف کی وجہ سے وہاں بیٹھے رہے۔آفیسرز کلب کی طرح ڈاکخانہ، خزانہ آفس سمیت دیگر دفاتر کو بھی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

اگرچہ ایف سی ہیڈکوارٹر کے قریب دفاتر اور گھروں کو زیادہ نقصان پہنچا لیکن اس سے دور گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔حافظ الطاف الرحمان کا گھر ایف سی ہیڈکوارٹر سے اندازاً نصف کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہ ہمیں اپنے گھر کے اندر لے گئے جہاں ان کے کمروں کے تمام شیشے ٹوٹ گئے تھے اور شیشوں کے سٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔انھوں نے بتایا کہ دھماکے کی شدت .اس قدر زیادہ تھی کہ جیسے ان کے گھر کے قریب ہی دھماکہ ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ نوشکی میں پہلے بھی دھماکے ہوتے رہے ہیں

لیکن اس کی شدت نہ صرف بہت زیادہ تھی بلکہ اس کے فوراً بعد فائرنگ اور چھوٹے دھماکوں کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی شروع ہوا۔انھوں نے بتایا کہ ’دو فروری کی شب جو کچھ محسوس کیا وہ قیامت صغریٰ سے کسی طرح سے کم نہیں تھا کیونکہ فائرنگ کے ساتھ ساتھ دھماکوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔‘

واضح رہے کہ نوشکی کوئٹہ شہر سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں واقع ہے اور ضلع نوشکی کی سرحد شمال میں افغانستان سے لگتی ہے۔نوشکی میں ماضی میں بھی بم دھماکوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم منگل کی شب جو واقعہ پیش آیا وہ نوشکی شہر کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
دوسری جانب پنجگور صوبے کے جنوبی حصے میں واقع ہے جہاں سے ایران کی سرحد 100 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر موجود ہے جبکہ یہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 500 کلومیٹر دور ہے۔

Related Articles

Back to top button