کیا جنرل عاصم منیر اپنے در پر کھڑے عمران کی فریاد سنیں گے؟

خود کو اقتدار دلوانے والے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دھوکے باز اور تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے اب عمران خان نے نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے در پر فریاد کرتے ہوئے انہیں خدا کے واسطے دینا شروع کر دیے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ان کا مطالبہ وہی پرانا ہے کہ فوری طور پر الیکشن کروائے جائیں۔ تاہم عمران بھول گئے کہ فوج غیر سیاسی ہو چکی ہے اور ویسے بھی الیکشن کروانا اسکی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک سچ ہے کہ سابقہ فوجی قیادت عمران کو غیر قانونی اور غیر آئینی فرمائشین ڈالنے کی جو بری عادت ڈال گئی ہے وہ ختم ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سینئر صحافی انصار عباسی کہتے ہیں کہ خان صاحب چاہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف فوری الیکشن کے انعقاد کے لئے اپنا کردار ادا کریں جس کے لیے موجودہ حکومت کو رخصت کیا جانا لازم ہے۔ یہی توقعات عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی جوڑے رکھیں۔ اب وہ نئی اسٹیبلشمنٹ سے بھی سیاسی مداخلت کی درخواست کر رہے ہیں تاکہ فوری الیکشن ہوں جو اُنہیں یقین ہے کہ تحریک انصاف ہی جیتے گی اور اس طرح وہ دوبارہ حکومت بنا لیں گے۔ موصوف کو یہ بھی یقین ہے کہ اس مرتبہ اُن کو الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں خان صاحب نے کہا کہ نئے آرمی چیف اچھے آدمی ہیں، وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔ لیکن اسکے بعد انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پرانی اسٹیبلشمنٹ کی تحریک انصاف مخالف ظالمانہ پالیسی تبدیلی نہیں ہوئی۔ عمران نے نئے آرمی چیف کو وقت دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے مطالبات پر غور کیا جائے گا۔

لیکن انصار عباسی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب نے جنرل عاصم منیر کے حوالے سے ایسے بات کی جیسے وہ اُنہیں جانتے ہی نہ ہوں، حالانکہ جنرل صاحب ان کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے اور عمران نے ہی مانیکا خاندان کی کرپشن کی نشاندہی کرنے پر انہیں ہٹایا تھا۔ ایسے میں عمران یہ کیسے سوچتے ہیں کہ نئی فوجی قیادت ان پر اعتبار کرکے ان کے مطالبات تسلیم کرانے میں کوئی کردار ادا کرے گی؟ یہ وہ سوال ہے جو عمران خان کو سوچنا چاہئے۔ ویسے بھی بہتر ہو گا کہ وہ اپنے ماضی قریب میں ضرور جھانک لیں، انہوں نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے جنرل فیض حمید کے ساتھ مل کر پورا زور لگایا۔ اس کے علاوہ عمران نے اپنے محسن جنرل باجوہ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس سے بھی کوئی جرنیل بھلا نہیں پائے گا۔ باجوہ نے عمران کو حکومت میں لانے اور اُنہیں کامیاب بنانے کے لئے وہ کچھ کیا جسکی پاکستانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی، لیکن عمران نے اُن کے ساتھ وہ کچھ کیا اور ایسے ایسے الزامات لگائے جنکی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عمران نے اس باجوہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو غدار اور جانور قرار دیا جس نے عمران کو حکومت میں لانے کے لئے ن لیگ اور پی پی پی کے خلاف سالہا سال جھوٹا بیانیہ بنایا، اُن کے مخالفین کے خلاف جھوٹے کیسز بنوائے اور سزائیں دلوائیں، 2018 کے الیکشن میں بدترین دھاندلی کروائی اور خان کو وزیراعظم بنانے کے لئے ہر قسم کی مدد کی۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی عمران اگر یہ امید رکھتے ہیں کہ نئی فوجی قیادت موجودہ حکومت کو رخصت کرکے ان کو اقتدار میں لانے کے لیے مدد کرے گی تو یہ سراسر انکی خام خیالی ہے۔

انصار عباسی یاد دلاتے ہیں کہ اپنے الوداعی خطاب میں جنرل قمر باجوہ نے واضح اعلان کیا تھا کہ فوج نے بحیثیت ادارہ فیصلہ کر لیا کہ اب سیاسی معاملات سے باہر رہے گی۔ لیکن اس سب کے باوجود تحریک انصاف اور اُس کے سوشل میڈیا نے جنرل باجوہ اور فوج کے چند اور اہم افسروں کو بدنام کیا، اُنہیں گالیاں تک دیں۔  جو کچھ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پروجیکٹ کے لئے کیا وہ آئین کے بھی خلاف تھا اور جمہوریت کے بھی۔ لیکن جنرل باجوہ نےجو کیا وہ عمران خان پر بڑا احسان تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران نے جو بدلے میں جنرل باجوہ کو دیا، کیا موجودہ اسٹیبلشمنٹ اسے بھول سکتی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جنرل باجوہ کی مثال کو دیکھتے ہوئے کیا عمران پر نئی اسٹیبلشمنٹ اعتبار کرتے ہوئے وہ کچھ کرے گی جو فوج کے آئینی کردار کے برخلاف ہے؟ انصار عباسی کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔

سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اگرچہ عمران نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں یہ تاثر دیا جیسے وہ موجودہ آرمی چیف کو نہیں جانتے لیکن وہ یقین رکھیں کہ موجودہ آرمی چیف اور اسٹیبلشمنٹ خان صاحب کو اچھی طرح جانتے ہیں۔  ویسے خان صاحب کی یاددہانی کے لئے جنرل عاصم منیر وہی ہیں جنہیں اُنہوں نے اپنی حکومت کے دوران بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی اس لئے فارغ کر دیا تھا کہ انہوں نے خان صاحب کے کچھ قریبی افراد کی مبینہ کرپشن کی اطلاعات اُنہیں مہیا کی تھیں جس پر خان صاحب ناراض ہوگئے تھے۔یہ وہی جنرل عاصم منیر ہیں جنہیں اُن کی تعیناتی سے چند ہفتہ قبل تک عمران آرمی چیف بنانے کی مخالفت کرتے رہے۔ امید ہے خان صاحب کو اب سب یاد آ گیا ہوگا۔  لیکن خان صاحب نے ماضی میں جو کیا وہ اچھا تھا یا بُرا، میری نئے آرمی چیف اور نئی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے یہ توقع ہو گی کہ وہ سیاسی طور پر نیوٹرل ہی رہے گی اور نہ تو عمران کے حق میں، اور نہ ہی اُنکے خلاف استعمال ہو گی۔

Related Articles

Back to top button