چوہدری برادران نے کپتان سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ مانگ لی

گجرات کے چوہدری برادران کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو یہ پیغام بھجوا دیا گیا ہے کہ اگر وہ مستقبل میں بھی قاف لیگ کا سیاسی ساتھ چاہتے ہیں تو انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کے حوالے کرنا ہو گی۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے قائدین آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن گجرات کے چوہدریوں کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ آفر کر چکے ہیں
جسکے عوض ان سے مرکز میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں حمایت مانگی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گجرات کے چوہدریوں نے وزارت اعلیٰ کا مطالبہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے ذریعے کیا تھا جو چند روز پہلے ان سے لاہور آ کر ملے تھے اور وزیر اعظم کی جانب سے حکومتی اتحاد نہ چھوڑنے کی درخواست کی تھی۔
تاہم چوہدریوں کے اس پیغام کے جواب میں جب عمران خان چند روز پہلے ظہور الٰہی پیلس پہنچے تو حیرت انگیز طور پر وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار ان کے ساتھ تھے جس کا چوہدری برادران نے کافی برا منایا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے عثمان بزدار کو ساتھ لے جانے کا واضح مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ بزدار ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ ویسے بھی اپنے گھر آئے ہوئے وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں چوہدری برادران کے لئے وزیراعظم سے وزارت اعلیٰ کا مطالبہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عموما سیاسی ملاقات کے وقت قائدین اپنے وفود سے علیحدہ ہو کر میٹنگ کر لیتے ہیں لیکن عمران خان نے ایسی کسی خواہش کا اظہار بھی نہیں کیا جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ صادق سنجرانی کی جانب سے پیغام پہنچائے جانے کے باوجود عمران خان چوہدریوں کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے پچھلے ساڑھے تین برس سے اگر فوجی قیادت کی جانب سے بزدار کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں مانا تو وہ اس معاملے پر قاف لیگ کا دباؤ بھی نہیں لیں گے۔
قاف لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران نے عمران خان سے ملاقات کے بعد الیکٹرونک میڈیا پر چلنے والی جھوٹی خبروں کا بھی سخت برا منایا جن میں کہا گیا تھا کہ چوہدری برادران نے وزیراعظم کو اپنے تعاون کی مکمل یقین دہانی کروا دی ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جھوٹی خبریں حکومت کے ایما پر چلائی گئیں
Chaudhry brothers demanded
حالانکہ قاف لیگی قیادت نے ابھی تک تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ایسے میں چوہدریوں نے عمران خان کو واضح پیغام بھجوا دیا ہے کہ وہ جلد از جلد وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کریں ورنہ ان کے پاس اپوزیشن کی جانب سے کی گئی پیشکش قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ اگر اپوزیشن پہلے پنجاب میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کرتی یے تو وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار قاف لیگ پر ہو گا۔ ایسے میں اگر وزارت اعلیٰ کا امیدوار چوہدری پرویز الہی کو بنا دیا جائے تو عثمان بزدار کی سو فیصد چھٹی ہو جائے گی۔
لہذا چوہدریوں کی جانب سے وزارت اعلیٰ کی ڈیمانڈ مسترد کرنے سے پہلے عمران کو سو مرتبہ سوچنا یو گا۔ وزیراعظم کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر گجرات کے چوہدریوں کو اپوزیشن کی جانب سے وزارت اعلی مل گئی تو پھر وہ مرکز میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت الٹ جائے گی۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں ق لیگ کے ارکان کی تعداد حکومت اور اپوزیشن کیلئے اہم ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ چوہدریوں نے جو فیصلہ کیا وہ طاقتور حلقوں کا ’’اشارہ‘‘ سمجھا جائے گا اور اگر چوہدری اپوزیشن کے ساتھ چلے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی عمران خان کی چھٹی کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تاہم اگر چوہدری برادران اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیتے تو پھر اسکا فوکس جہانگیر ترین گروپ پر ہو جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چوہدری برادران کے سیاسی اثرورسوخ نے انھیں حزبِ اختلاف اور حکومت دونوں کے لیے اہم بنا دیا ہے۔ تاہم ان کے خیال میں حزبِ اختلاف کو چوہدری برادران سے زیادہ توجہ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں پر دینی چاہیئے۔
انکا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کے وہ ناراض اراکین جو تحریکِ انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں وہ حزبِ اختلاف کے لیے زیادہ آسان ہدف ثابت ہو سکتے ہیں
کیونکہ عمران نے ترین کو سخت نقصان پہنچایا ہے حالاں کہ وہ ان کے محسن تھے۔
تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کی چوہدری برادران نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر سیاست کی ہے اور وہ اپوزیشن میں بیٹھنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ اسی لیے سیاسی تبدیلی لانے سے زیادہ ان کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ مستقبل میں ان کو کیا ملے گا۔ انھیں یہ گارنٹی چاہیے ہوگی کہ انہیں تبدیلی کے بعد کیا ملے گا۔
مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ اس وقت ن لیگ پنجاب میں ایک بڑا حصہ دار ہونے کے باوجود چوہدریوں کو زیادہ پیشکش کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ چوہدری برادران کے آصف زرداری کے ساتھ نسبتاً اچھے تعلقات ہیں۔
لیکن ان کے مطابق پیپلز پارٹی ازخود بھی انھیں کچھ زیادہ دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس صورت حال میں چوہدریوں کے لیے زیادہ فائدہ مند یہی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ رہیں اور اگلے انتخابات کے بعد کے لیے اپنے لیے کوئی گارنٹی حاصل کر سکیں۔’ یہی وجہ ہے کہ مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ اس وقت اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ گجرات کے چوہدری کسی ممکنہ تحریکِ عدم اعتماد میں حزبِ اختلاف کا ساتھ دیں گے۔
تاہم سوال یہ تھا کہ کیا حکومت کو انھیں ایسا کرنے سے روکنے کے لیے کوئی ‘گارنٹی’ دینا ہوگی۔ صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ اس کا دارومدار اس بات پر بھی ہوگا کہ ‘فیصلہ ساز قوتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں اور کس طرف جاتی ہیں۔’
تاہم ان کے خیال میں اس وقت بھی محض ملاقاتوں کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حزبِ اختلاف کو عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی گارنٹی مل گئی ہے یا حکومت کے سر سے خطرہ ٹل گیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق حزبِ اختلاف پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو توڑنے کی کوشش کرے گی لیکن اس کو گارنٹی صرف ق لیگ یا حکومتی اتحادیوں ہی سے مل سکتی ہے۔ اس وقت تک حزبِ اختلاف کوئی چال چلنا نہیں چاہے گی۔ اس لیے چال اب بھی چوہدریوں ہی کے ہاتھ میں ہے