سازشیوں کو شکست دینے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

پاکستان میں آزاد عدلیہ کی علامات قرار دئیے جانے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بالآخر تمام تر عمرانی سازشوں کو شکست فاش دیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس تعینات ہو گئے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کو رکوانے کیلئے عمرانڈو ججز  اور ان کی پشت پناہی کرنے والی اسٹیبلشمنٹ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جہاں ایک طرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی برطرفی کی خبریں گردش کرنے لگیں وہیں الزام تراشیوں، بہتان بازی اور کردار کشی سے تنگ آ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مستعفی ہونے کا بھی فیصلہ کر لیا تاہم قدرت کو کچھ اور منظور تھا کہ ماضی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف کرپشن کے ریفرنسز بھجوانے والا عمرانڈو صدر عارف علوی آج ان سے حلف لینے پر مجبور ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکردہ رکن تھے اور محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد صوبے کے پہلے فرد تھے جنہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور لندن سے واپس آکر بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی، ان کے والد بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے واحد رکن تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی والدہ بیگم سعدیہ عیسیٰ سماجی کارکن تھیں، وہ ہسپتالوں اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لیے کام کرتی تھیں، جو بچوں اور خواتین کی تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل پر کام کرتی تھیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کراچی گرامر اسکول سے ’O‘ اور ’A‘ لیول مکمل کیا، جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول لا سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا۔قاضی فائز عیسیٰ عدالت عالیہ بلوچستان میں30 جنوری1985 میں ایک وکیل کے طور پر درج ہوئے اور 21 مارچ 1998 کو وہ عدالت عظمٰی میں وکیل کے طور پر منسلک ہوئے ۔چیف جسٹس عیسٰی نے 27 سالوں تک مختلف عدالت عالیہ وفاقی شریعی عدالت اور عدالت عظمٰی کے سامنے پیش ہوتے رہے۔اور وہ بلوچستان ہائی کورٹ ایسوسی ایشن ، سند ھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن آف پاکستان کے تا دم مرگ ممبر ہیں۔اُن کے جج بننے سے پہلے وہ ایک نامور لاء فرم کے سنئیر حصہ دار تھے ۔وقفہ وقفہ سے اُنھیں عدالت عالیہ اور عدالت عظمٰی میں مشکل مقدمات میں مشورے کے لئے بلایا جاتارہا ہے۔وہ بہت سے بین الاقوامی مقدمات میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں اور یہ مقدمات بہت سے قانونی رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اعزازی طور پر پاکستان کے ایک بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اسکے علاہ وہ پالیسی بورڈآف سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان اور قائد مزار منجمینٹ بورڈ کے بھی ممبر رہے وہ 1994 تک اسلامیہ لاء کالج یونیورسٹی آف کراچی میں آئین پاکستان اور برصغیر کی قانونی تاریخ کے پروفیسر رہے۔وہ ایک کتاب

“Mass Media Laws and Regulations in Pakistan”

کے مشترکہ لکھاری بھی ہیں ۔ جسے ایشین میڈیا اور انفارمیشن سینٹر سنگاپور نے چھاپا اور یہ اس عنوان پر پہلی کتاب ہے۔اُنھوں نے”بلوچستان کیس اینڈ ڈیمانڈ “ نامی کتابچہ بھی لکھا ہے ۔ )جسے پلڈاٹ  نے 2007 میں شائع کیا(اسکے علاوہ اُنھوں نے قانون ماحولیات ، اسلام، بلوچستان اور آئین پر بہت سے اداریے لکھے جو کہ مختلف ممتاز انگلش اخباروں میں شائع ہوئے۔

3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا۔ان حالات میں جسٹس فائز عیسٰی کو بلایا گیا اور صوبہ بلوچستان میں کام کرنے کے لئے کہا گیا اور اُنھیں 5 اگست 2009 کو چیف جسٹس بلوچستان کا عہدہ دے دیا گیا۔

حکومت پاکستان نے یکم اکتوبر 2010 میں اُس وقت عدالت عالیہ لاہور کے چیف جسٹس جناب خواجہ محمد شریف کے غیر قانونی اقدام قتل پر ایک کمیشن بنایا ،چیف جسٹس عیسٰی اس کمیشن کے چئیر مین بنے اس کمیشن میں عدالت عالیہ لاہور اور پشاور کے جج صاحبان رُکن تھے اس کمیشن کی رپورٹ حکومت کو جمع کروا دی گئی تھی۔

30 دسمبر 2011 کو عدالت عظمٰی نے ایک تین رُکنی کمیشن بنایا جو کہ اُس یاداشت کی اصلیت ، جاننے کے بارے میں تھا جو کہ یو-ایس جوائنٹ چیف آف سٹاف مائیک مولین کو دیا گیا تھا ۔یہ کمیشن جسٹس مُشیر عالم ، جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی جو کہ عدالت عالیہ سندھ ، اسلام آباد اور بلوچستان کے چیف جسٹس صاحبان تھے پرمشتمل تھا۔ چیف جسٹس عیسٰی اس کمیشن کے چئیرمین تھے۔انھوں نے مئی 2012 میں اپنی رپورٹ عدالت عظمٰی میں جمع کروا دی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، بلوچستان ہائی کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے، وہ اس دوران بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تاحیات رکن رہے۔علاوہ ازیں انہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں معاونت کے لیے بھی طلب کیا جاتا رہا، اس کے علاوہ وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، وہ ان دنوں اسلام آباد میں اپنی اہلیہ کے ساتھ

کیا آپ نے کسی کٹھ پتلی کو پینٹنگ کرتے دیکھا ہے؟

مقیم ہیں اور ان کے 2 بچے ہیں۔

Related Articles

Back to top button