اولمپکس میں چینی فوجی نے بھارت کے سینے پر مونگ کیسے دلی؟

چین کی جانب سے سرمائی المپکس کی مشعل برداری تقریب میں اپنے ایک ایسے فوجی کو بطور کمانڈر شرکت کا اعزاز دیا گیا جس نے وادی گلوان میں بھارت چین فوجی جھڑپ میں انڈین فوجیوں کی خود دھلائی کی تھی۔ جہاں بھارت نے چین کے اس فیصلے پر اظہار آزادی کیا ہے وہیں دفاعی تجزیہ کار اسے چین کی جانب سے سرحدی تنازعے میں بھارت پر اپنی برتری کے اظہار کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔
4 فروری کو شرو ع ہونے والے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے ٹارچ ریلے میں شامل ایک چینی فوجی کی ویڈیوز اور تصاویر چینی میڈیا کافی نمایاں طورپر پیش کر رہا ہے۔ یہ چینی فوجی پیپلز لبریشن آرمی کے ریجمنٹ کمانڈر قی فاباؤ ہیں، جو بھارت اور چین کی فوج کے مابین سال 2020 میں سرحدی علاقے گلوان میں ہونے والی فوج جھڑپ میں شامل تھے۔
اس جھڑپ میں بھارت کے کم از کم 20 جوان مارے گئے تھے، جب کہ چین نے بھی اپنے چار جوانوں کی موت کی تصدیق کی تھی۔ چین کے سرکاری روزنامہ گلوبل ٹائمز نے قی فاباؤ کو ایک ہیرو قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اولمپک ٹارچ ریلے میں شامل 1200مشعل برداروں میں سے ایک تھے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ فاباؤ بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہوگئے تھے اور ان کے سر پر چوٹیں آئی تھیں۔
بھارت نے بظاہر 4 فروری سے شروع ہونے والے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور علامتی طور پر اس کا صرف ایک کھلاڑی ان کھیلوں میں حصہ لے رہا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے اسکائر عارف محمد خان بھارت کی نمائندگی کریں گے۔
نئی دہلی حکومت کے کسی اعلیٰ سطح کے رہنما نے مغربی ممالک کی جانب سے اس ایونٹ کے سفارتی بائیکاٹ میں شامل ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہ اس لیے بھی زیادہ حیرت کی بات ہے کیوں کہ چین نے اولمپک مشعل برداری کی تقریب کے لیے اپنے ایک ایسے فوجی کا انتخاب کیا تھا جس نے سرحدی کشیدگی کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ وادی گلوان میں دہائیوں بعد ہونے والی خونی جھڑپ میں حصہ لیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارت آخری لمحے تک بیجنگ اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ سے باہر رہا۔ اس لیے 4 جنوری کو یہ ایک اہم واقعہ تھا جب نئی دہلی میں وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ گیمز کی افتتاحی یا اختتامی تقریبات میں کوئی بھی بھارتی نمائندہ موجود نہیں ہوگا۔
عوام کے عدم اعتماد کا وقت آ گیا
بھارتی وزارت خارجہ نے چین کی جانب سے فوجی مشعل بردار کے انتخاب پر اولمپکس کو سیاسی رنگ دینے کو بھی افسوس ناک قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ اور کئی دیگر مغربی نے چین کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اس ایونٹ کا سفارتی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں پر دو سال قبل وادی گلوان میں چین اور بھارت کے سرحدی گشت کرنے والے فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی کی بدترین لڑائی ہوئی تھی۔ اس متنازع سرحد ایل اے سی پر دونوں ممالک کے فوجی عام طور پر آتشیں اسلحے کا استعمال نہیں کرتے تاکہ تنازع کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ اس جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے جب کہ چینی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد چار تھی۔
15 جون 2020 کی اس جھڑپ کے بعد سے دونوں فریق سرحدی تناؤ میں الجھے ہوئے ہیں اور عمومی پرامن سٹیٹس پر واپسی کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی فوجی مذاکرات کے ایک درجن سے زیادہ دور ہو چکے ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
چین اور انڈیا کے مابین سرحدی تنازعے کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین پہلے سے ہی زمینی سرحدی قانون کے احکامات پر عمل کر رہا ہے جس میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ ریاستوں سے تمام سرحدوں پر واضح باؤنڈری مارک قائم کرنا، سرحدی قصبوں کی تعمیر اور ان کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانا شامل ہے۔
اس حوالے سے چین نے تازہ قانون سای بھی کی ہے اور نئے قوانین چینی سرحدوں کی حفاظت اور دراندازوں کے خلاف ہتھیاروں کے استعمال کے لیے مزید فوج اور پولیس کی تعیناتی کی اجازت دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ قوانین ان تمام 14 ممالک پر لاگو ہوں گے جن کی چین کے ساتھ زمینی سرحدیں ملتی ہیں لیکن اس کے دائرہ کار نے بھارت کے لیے خاص طور پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
چین نے باضابطہ طور پر اپنے 14 میں سے 12 پڑوسیوں کے ساتھ علاقائی تنازعات کا حل نکال لیا ہے اور اب صرف بھارت اور بھوٹان کے ہی چین کے ساتھ کشیدہ سرحدی اختلافات ہیں۔ بھارت یقینی طور پر محاذ آرائی نہیں چاہتا اور متنازع سرحد کے ساتھ نئی چینی تعمیرات پر اس کا ردعمل بڑی حد تک خاموشی پر مشتمل ہے جب کہ فوج اور حکومت کی طرف سے ملے جلے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ فی الحال فوری پیش رفت کا واحد راستہ یہ ہے کہ بھارت چینی شرائط پر راضی ہو کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ چین ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔