فوجی اسٹیبلشمنٹ میں اس وقت دو دھڑے برسرِپیکار ہیں

سینئر صحافی اور تجزیہ نگار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک واضح دراڑ ہے اور دو دھڑے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ایک دھڑا وہ ہے جو عمران کو برسر اقتدار لایا اور ان کی ناکامی کے باوجود چاہتا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آئیں۔ جبکہ دوسرا دھڑا سمجھتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران کو اقتدار دلوایا لیکن انہوں نے پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کے علاوہ اسے معاشی بحران میں ڈال کر اسٹیبلشمنٹ کو بدنامی کیا، لہذا انھیں دوبارہ ایسی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی۔

فرائیڈے ٹائمز کے لیے اپنے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے بالآخر چھلانگ لگا ہی دی ہے۔ مختلف امکانات پر غور کرتے ہوئے دوہفتوں کے تذبذب کے بعد اس نے قدم جمانے، عمران خان کے فوری انتخابات کرانے کا فیصلہ مسترد کرنے، آئی ایم ایف کی شرائط پر دستخط کرنے، سخت بجٹ بنانے اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد یا اس کے بغیر ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ چوں کہ انتخابات کا جلد یا بدیر انعقاد ہونا ہے، اس لیے اب وقت ہی بتائے گا کہ کیا یہ فیصلہ دانش مندانہ تھا یا نہیں۔ بقول سیٹھی، حکومت کے لیے پہلا آپشن تو یہ تھا کہ تیزی سے انتخابی اور نیب قوانین میں ترمیم کریں اور اگست یا ستمبر میں انتخابات کرانے کے لیے نگران حکومت قائم کرکے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت عوام پر بوجھ ڈالے بغیر گھر چلے جائیں۔ یہ آپشن اختیار کرنے کی وجہ واضح تھی کی عمران کا پھیلایا ہوا گند اسٹیبلشمنٹ کو خود ہی صاف کرنے دیں جو چار سال تک ان کی تباہ کن بدانتظامی سے چشم پوشی کرتی رہی تھی۔ اس کے ساتھ یہ بیانیہ بھی ارزاں کریں کہ پی ڈی ایم نے عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کی بجائے عہدے اور اختیارات پر لات مارنے کو ترجیح دی۔ اس موقف کے انتخابی نتائج پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کے لیے کافی سازگار ہوتے۔ دوسرا آپشن اسٹیبلشمنٹ کی تعمیل کرنا تھا، یعنی پہلے سخت فیصلے کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو پاکستان کی طرف واپس لائیں اور اس گھمبیر معاشی بحران کو ٹالیں، اور پھر اس کے بعد ستمبر میں انتخابات کرادیں۔ انتخابات کرانے کے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے سامنے پی ڈی ایم دم نہیں مار سکتی کیوں کہ ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کا بلا شرکت غیرے کنٹرول اس کے پاس ہے اور پی ڈی ایم کی بقا کا دارومدار انہی دو جماعتوں کے ووٹوں پر ہے۔ لیکن بقول سیٹھی، مئی کے وسط میں لندن میں ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے سربراہ، نوا زشریف نے اس آپشن کو مسترد کردیا تھا کیوں کہ اس کی وجہ سے پی ڈی ایم رائے دہندگان کی ناراضی مول لیتی اور وقت نہ ملنے کی وجہ سے معاشی پالیسیوں سے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا موقع نہ ملتا۔

اب ہوا یوں کہ جب حکومت باہر نکلنے کی حکمت عملی بنا رہی تھی، تو عمران کے 25 مئی کے لانگ مارچ کے اعلان کی وجہ سے قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ کرنے کا موقع اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ کوئی بھی پارٹی یا حکومت اس طرح بلیک میلنگ دباؤ کے سامنے کیسے جھک سکتی ہے؟ پھر وہ ووٹر کو کیا منہ دکھاتی؟ اس کے برعکس اس نے کمر باندھتے ہوئے لانگ مارچ کے سامنے مزاحمت کرنے اور اسے ناکام بنانے کا عزم کرلیا۔ جب پنجاب سے ناکافی عوامی حمایت کی وجہ سے اور جزوی طور پر حکومت کی سخت مزاحمت کی وجہ سے عمران خان کا خطرہ ٹل گیا تو پی ڈی ایم نے موقع غنیمت جانا اور خود کو اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر بنانے کے لیے سخت فیصلہ کرنے پر رضا مند ہوگئی تاکہ معیشت کی ڈوبتی سانسیں بحال کی جاسکیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے لاحق خطرے کو ہمیشہ کے لیے پسپا کیا جاچکا اور کیا اب پی ڈی ایم کی حکومت 2023 کے آخر تک قائم رہے گی، سوال یہ بھی یے کہ کیا اسٹبلشمنٹ کو آخر کار اپنا طویل کھویا ہوا سیاسی ساتھی مل گیا ہے اور وہ تحریک انصاف کا ہاتھ جھٹکنے کی متحمل ہو سکتی ہے؟ نجم سیٹھی اس سوال کا جواب نہ کی صورت میں دیتے ہیں۔ انکے مطابق دو عوامل ایسے نتائج کے پرخچے اُڑاتے ہیں۔ پہلا عمران اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ اُنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ عوامی حمایت حاصل رکھتے ہیں۔ ان کے حامی بہت پرجوش اورپرعزم ہیں، اور ہر طبقے میں ان کی نمائندگی موجود ہے۔ وہ کسی بھی عام انتخابات سے پہلے، یا دوران اور بعد میں کسی بھی نظام کے لیے مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔ دوسرا یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر دراڑ ہے: ایک دھڑے کا خیال ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے عمران کو پالا تھا لیکن موصوف ملک کو سفارتی طور پر الگ تھلگ اور معاشی بحران میں ڈال کر اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث بنے۔ لہذا انھیں دوبارہ ایسی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی۔ دوسرا دھڑا اب بھی ان کی حمایت کرتا ہے کیوں کہ وہ شریفوں اور بھٹو زرداریوں سے نفرت کرتا ہے جن کے خاندان نے تین دہائیوں تک ملک پر حکومت کی ہے۔ یہ دھڑا چاہتا ہے کہ عمران کھیل کو گرم رکھیں۔ یہ دھڑا اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے اندر اختیار کی کشمکش میں مصروف ہے تاکہ اپنے اہداف حاصل کرسکے۔ معاملہ اس لیے پیچیدہ ہے کہ دونوں دھڑے چاہتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے تا کہ قومی سیاست پر اسٹبلشمنٹ کی گرفت مضبوط رہے۔

نجم سیٹھی کے بقول ان حالات میں تحریک انصاف کی پروپیگنڈا مشین یہ ثابت کرنے کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہے کہ 25 مئی کا لانگ مارچ اتنی بڑی کامیابی تھا کہ پی ڈی ایم حکومت عمران کی طرف سے دی گئی چھ دن کی مہلت کے سامنے جھک گئی ہے اور آئندہ چند دنوں میں انتخابی شیڈول کا اعلان کردے گی۔ حکومت کا ردعمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ لانگ مارچ فلاپ تھا اور خان دوسری کوشش کرنے سے پہلے دو بار سوچیں گے۔ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے لیے قدم جما چکی ہے۔ آگے کیا ہوگا اس کا انحصار دو اہم عوامل پر ہے۔ پہلا، عمران حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے چھوٹے بڑے طوفان برپا کرنے کی کتنی سکت رکھتے ہیں تاکہ وہ اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کرحکومت کو جلد از جلد انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کردے۔ دوسرا یہ کہ جلد از جلد معیشت کو پٹری پر چڑھانے اور عالمی تعلقات بحال کرنے کی حکومت کی کارکردگی پر تا کہ اسے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہے اور جلد انتخابات کے لیے دباؤ نہ آئے۔ یعنی پی ڈی ایم حکومت کے سامنے ایک مشکل کام ہے۔ اس کے اتحادی شراکت دار قابل اعتماد یا قابل بھروسا نہیں ہیں۔ صدر عارف علوی تحریک انصاف کا نشتر بن کر ہر مرحلے پرحکومت کو لہولہان کرنے کاتہیہ کیے بیٹھے ہیں۔ عدلیہ مجموعی طور پر عمران کی حامی ہے جب کہ بظاہر اب اس کا اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ نہیں ہے۔ پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت ججوں کے ہاتھ میں دھاگے سے لٹکی ہوئی ہے۔ عوام آئی ایم ایف کے کفایت شعاری پروگرام کے بوجھ تلے کراہنے والے ہیں اور کئی طریقوں سے اپنی ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔ اور عمران خان کی پروپیگنڈا مشین کا مقصد پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو مسلسل ہدف بنانا ہے تاکہ اُنھیں کام کرنے کا کوئی موقع

شہباز کیطرح وزیراعظم بنتے وقت عمران پر بھی کیسز تھے

نہ مل سکے۔

اس لیے نجم سیٹھی کے مطابق اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اگلے دو مہینوں میں پی ڈی ایم کی سکت جواب دے جائے اور انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اس کے بعد نگران حکومت آئے گی اور حکومت کی باگ ڈور براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں چلی جائے گی جسے عدلیہ کی معاونت بھی حاصل ہوگی۔ نگراں کب تک رہتے ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں یہ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے میں اگلی چیز ہوگی ۔ بہت کچھ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ کون سی پارٹی اکثریت حاصل کرے گی اور اس سال دسمبر میں راولپنڈی میں کون سا فور سٹار جنرل راج کرے گا۔ بس دیکھتے رہیے۔

Related Articles

Back to top button