الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں دے پا رہا؟


تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 2014 سے زیر التوا فارن فنڈنگ کیس شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے اور چھ برس گزرنے کے بعد بھی وزیراعظم عمران خان کی تحریک انصاف کے خلاف دائر کیس کا فیصلہ نہیں دیا جا رہا۔
پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس نومبر 2014 میں پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کیا تھا۔ دسمبر 2014 میں جسٹس ریٹائیرڈ سردار محمد رضا کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا گیا تو انہوں نے اس کیس پر کارروائی شروع کی لیکن اگلے پانچ برس میں، یعنی دسمبر 2019 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک، وہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باعث اس کیس کا فیصلہ نہ کروا سکے۔ جسٹس سردار رضا کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنوری 2020 میں راجہ سکندر سلطان کو نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا گیا۔ تاہم پچھلے ایک برس کے دوران وہ بھی اس کیس کا فیصلہ کروانے میں ناکام رہے ہیں جس کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ اور وزیر اعظم کا دباؤ ہے۔
درحقیقت فارن فنڈنگ کیس ملکی تاریخ میں بیرون ملک سے غیر قانونی طریقوں اور آف شور کمپنیوں سے پارٹی فنڈز کے نام پر اربوں روپے کے غبن کا بہت بڑا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آنے کی صورت میں عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف دونوں پر تاحیات پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ اس مقدمے میں روز اول سے تحریک انصاف نے تاخیری حربے استعمال کیے ہیں لیکن جلد یا بدیر اس مقدمے کا فیصلہ ضرور ہونا ہے جو ملکی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے پارٹی فنڈ میں غبن کا سب سے بڑا سکینڈل اور درست ثابت ہونے کی صورت میں بیرونی فنڈنگ حاصل کرنے کا اپنی نوعیت کا پہلا جرم ہو گا۔ فارن فنڈنگ کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے ‘ہنڈی’ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی، ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔ اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے خلاف مقدمے کی درخواست 14 نومبر 2014 کو پیش کی۔ جس میں انہوں نے عمران خان اور دیگر رہنماؤں پر تحریک انصاف کے فنڈز میں خورد برد اور غیر قانونی بیرونی فنڈنگ کا الزام عائد کیا۔ 18 نومبر 2014 کو اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف کے نمائندوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی اور انہیں یہ مقدمہ واپس لینے کا کہا گیا۔ 21 نومبر 2014 کو اکبر ایس بابر نے وزارت داخلہ کو اس ضمن میں ایک خط تحریر کیا اور اپنی حفاظت کے لئے سکیورٹی کی درخواست کی۔ یکم اپریل 2015 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک آبزرویشن دی کہ تحریک انصاف کی جانب سے جماعت کے مالیاتی گوشواروں کی جمع کروانے والی فہرستیں قانون کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ ان میں جماعت کو ملنے والے فنڈز کے ذرائع کا ذکر موجود نہیں۔
تحریک انصاف نے جواب میں الیکشن کمیشن کے سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنے کی صوابدید پر سوالات اٹھا دیے اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اس اعتراض کو لے کر الیکشن کمیشن نے سماعت کی اور 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کے جماعت کی فنڈز کی چھان بین کے بارے میں اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن فنڈز کی چھان بین کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے بعد 26 نومبر 2015 کو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے دائرہ کار اور اکبر ایس بابر کے بطور مدعی بننے پر اعتراضات کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروا دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے تاخیری حربوں کے باعث یہ مقدمہ تقریباً ڈیڑھ سال چلا اور 17 فروری 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کے اختیار کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس مقدمے کی سنوائی کا مجاز قرار دیا اور ساتھ میں ہی اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف کا رکن قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف تحریک انصاف کی متاثرہ فریق نہ ہونے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اور یوں 2017 میں الیکشن کمیشن نے دوبارہ سے اس مقدمے کی سنوائی کا آغاز کر دیا۔
نومبر 2014 سے لے کر آج تک تحریک انصاف نے اسلام آباد میں پانچ مرتبہ الیکشن کمیشن کے بارے میں تحفظات اور اکبر ایس بابر کی جماعت کی رکنیت کی منسوخی کے حوالے سے پانچ متفرق درخواستیں جمع کروائیں۔ ایک درخواست میں اس مقدمہ کی سماعت کو ان کیمرہ یعنی خفیہ رکھنے کی درخواست کی گئی۔ دوسری درخواست میں عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ کسی بھی عام پاکستانی کی درخواست پر اپنی جماعت کے گوشواووں کی پڑتال کروانے کے پابند نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے گوشواروں کی پڑتال نہ کروانے اور الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے متعلق تمام درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کی جانب سے مسترد کر دی گئیں۔ نومبر 2014 سے لے کر آج تک تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے 24 تحریری حکم ناموں کی تعمیل نہ کرتے ہوئے جماعت کے اندرون ملک اور بیرون ملک کھاتوں کی تفصیلات جمع نہیں کروائیں۔ مارچ 2018 میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے بنک کے کھاتوں کے لئے ایک کمیٹی قائم کی۔
3 جولائی 2018 کو الیکشن کمیشن نے سٹیٹ بنک کو خط لکھ کر تحریک انصاف کے 2009 سے 2013 تک کے بنک کے کھاتوں کا ریکارڈ طلب کیا۔ 16 جولائی 2018 کو سٹیٹ بنک نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے گوشواروں کی فہرست مہیا کر دی۔جب الیکشن کمیشن نے ان کھاتوں کی جانچ پڑتال کی تو یہ معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کے ملک بھر میں 23 بنک کے کھاتے موجود ہیں لیکن الیکشن کمیشن کو محض 8 بنک کے کھاتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ان ظاہر نہ کیے جانے والے بنک کھاتوں میں اربوں روپے کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی کا لین دین ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ میں دو ایسی کمپنیاں سامنے آئیں جو عمران خان کے دستخطوں کے ساتھ قائم ہوئی تھیں اور جن سے غیر قانونی فارن فنڈنگ پوشیدہ ملکی بنک اکاؤنٹس میں منتقل کی جاتی تھیں۔
PTI USA LLC No. 5975 – USDسے 1,998,700 روپے پاکستان منتقل کیے گئے جبکہ PTI USA LLC No. 6160 کی جانب سے 669,000 امریکی ڈالر تحریک انصاف کے ملکی کھاتوں میں منتقل ہونے کا انکشاف ہوا۔ ایک اور آف شور کمپنی انصاف آسٹریلیا انکارپوریٹڈ نامی کمپنی آسٹریلیا میں قائم کی گئی جس کا بنک اکاؤنٹ نمبر 00102012397479527102 ہے۔ اس اکاؤنٹ سے پاکستان میں کتنی رقم منتقل ہوئی اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں اس آف شور کمپنی کی جانب سے 32,500 آسٹریلین ڈالر تحریک انصاف پاکستان کے ظاہر نہ کیے گئے بنک گوشواروں میں بھیجے گئے۔ ان تینوں کمپنیوں کی جانب سے تحریک انصاف کے بنک کے کھاتوں میں بھیجی گئی رقوم قانون کے مطابق جرم ہیں۔ اسی طرح برطانیہ سے انیل مسرت اور صاحبزادہ جہانگیر تحریک انصاف کو فنڈ مہیا کرتے رہے۔ برطانیہ سے دو بنک اکاؤنٹ نمبروں 00191424 اور اکاؤنٹ نمبر 26675768 سے لاکھوں پاؤنڈز تحریک انصاف پاکستان کے خفیہ بنک اکاؤنٹس میں بھیجے جاتے رہے۔
ڈنمارک سے بھی رقم منتقلی کے شواہد الیکشن کمیشن میں جمع ہیں جبکہ متحدہ ارب امارات سے اربوں روپے کی فنڈنگ ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کے ذریعے حاصل کی گئی۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے پاس سالانہ 52 ملین روپے ہنڈی کے ذریعے منگوانے کے شواہد بھی اکبر ایس بابر جمع کروا چکے ہیں۔ اس تمام ریکارڈ کی الیکشن کمیشن سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔
فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے مطابق شق 15 کا استعمال کرتے تحریک انصاف کو بطور جماعت کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 61 اور 62 بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف اگر اس کیس میں خود کو کلیئر نہ کروا سکی تو نہ صرف بطور جماعت اس کا وجود ختم ہو جائے گا بلکہ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی، قومی اور سینیٹ بھی اپنے عہدوں سے فارغ ہوجائیں گے اور یوں تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 13 کے تحت مالی سال کے اختتام سے 60 روز کے اندر الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے جس میں سالانہ آمدن اور اخراجات، حاصل ہونے والے فنڈز کے ذرائع، اثاثے اور واجبات شامل ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ پارٹی کا سربراہ الیکشن کمیشن میں ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کروانے کا مجاز ہوتا ہے جس میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ تمام مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور کوئی بھی فنڈ کسی ممنوعہ ذرائع سے حاصل شدہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے جو سرٹیفکیٹ جمع کروایا گیا اس میں اس بات کو چھپایا گیا ہے تحریک انصاف کو کس کس ذرائع سے پارٹی فنڈز ملے گی۔ پارٹی کے فنڈز کے ذرائع ظاہر نہ کرنے پر آرٹیکل 61 اور 62 کوئی بھی اتھارٹی استعمال کر سکتی ہے چاہے وہ الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button