اگر ایمپائر نے انگلی کھڑی کردی تو انجام گلستاں کیا ہو گا؟

انجام گلستاں کیا ہو گ


کل تک ایک سابق وزیر اعظم پوچھ رہے تھے کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ لیکن آج خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن ہارنے والا پوچھ رہا ہے کہ مولانا کو کیوں جتایا اور مجھے کیوں ہرایا؟ پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے کچھ ایسے ہی رہی ہے۔ اب تو لگتا ہے ملک پھر سے الیکشن موڈ میں آگیا ہے۔ لیکن اس نئے میچ سے پہلے غیر ضروری طور پر ایمپائر کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ایسے میں اگر ایمپائر نے انگلی کھڑی کر دی تو انجامِ گلستان کیا ہوگا؟
ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینئر صحافی مظہر عباس اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں ناکامی کے بعد اب کپتان اپنا غصہ یا تو اپوزیشن پر اتار رہے ہیں یا اداروں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ سوال یہ یے کہ موصوف اپنے حالیہ خطاب میں آخر مخاطب کس سے تھے؟ کون ہےجو کپتان کے بقول سابق وزیر اعظم نواز شریف کو واپس لا رہا ہے؟ کون ہے جو انکے بقول ایک ’’مجرم’’ کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کی سازش کر رہا ہے۔ کہتان کے اس بیان میں غصہ بھی تھا اور پریشانی بھی۔ ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے جس سے دسمبر کی سخت سردی میں بھی گرمی محسوس ہونے لگی ہے اور حزب اختلاف کے ’’مردہ جسم‘‘ میں جیسے جان سی پڑ گئی ہے۔
مظہر عباس کے خیال میں سال 2022 میں عام انتخابات نہ بھی ہوئے تو پنجاب کے بلدیاتی الیکشن خاصا تماشہ کھڑا کرنے جا رہے ہیں۔ رہ گئی بات نواز شریف کے واپس آنے کی تو میری اطلاع کے مطابق وہ فوری واپس نہیں آرہے اور نہ ہی ہمارے وزیراعظم اور کپتان جلدی جا رہے ہیں۔ البتہ وہ گھبرا ضرور رہے ہیں، شاید اسی وجہ سے حکومتی نا اہلی اور ناقص کارکردگی کا سارا بوجھ پارٹی پر ڈال کر تمام تنظیموں کو توڑ دیا گیا یے اور نئے الیکشن کے بجائے نئی نامزدگیاں کر دی ہیں۔
یہ نامزدگیاں ایک ایسے وقت پر کی گئی ہیں جب ابھی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن ہونے ہیں، جب کہ خیبر پختونخوا میں شکست کا دوسرا مرحلہ آنا ابھی باقی ہے۔ بظاہر پارٹی تنظیمیں توڑنے کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے۔ یہ ویسی ہی غلطی ہے جو 2013 میں عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی میں پارٹی الیکشن کرا کے کی گئی تھی۔ بقول مظہر عباس، بات بہت سادہ سی ہے۔ کے پی میں اگر لوگ وزیر اعلیٰ محمود خان کی کارکردگی دیکھ کر مولانا کی جماعت کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور پنجاب میں وسیم اکرم پلس کو دیکھ کر شہباز شریف کو یاد کرنےلگے ہیں تو قصور ’’لاڈلوں‘‘ کا ہے یا نامزد کرنے والے کا۔ لیکن اچھا ہوا کے پی میں پارٹی کی ذمہ داری واپس پرویز خٹک کو مل گئی۔ بہتر ہوتا کہ کپتان ان کو محمود خان کی جگہ ہی لے آتے مگر لگتا یہ ہے کہ دوسرے مرحلے میں اگر خٹک نے پارٹی کو کامیابی دلوا دی تو عام انتخابات سے پہلے ہی وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بن جائیں۔ جہانگیر ترین کے جانے کے بعد سیاسی معاملات کو دیکھنے والا دماغ غالباً خان صاحب کے پاس خٹک ہی ہے۔ رہ گئی بات پنجاب کی تو اس کے لئے شفقت محمود اور خسرو بختیار کا فیصلہ خود پارٹی کے لوگوں کے لئے حیران کن ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ بے ضرر سے شفقت پڑھے لکھے انسان ہیں مگر شاید انہیں تنظیم سازی کا تجربہ نہیں ہے۔ دوسرا اگر عثمان بزدار کا دفاع فردوس عاشق اعوان، فیاض الحسن چوہان اور شہباز گل تک کوئی نہ کر سکا تو شفقت محمود کیسے کریں گے۔ مگر کپتان ہیں کہ ان کو چلائے چکے جا رہا ہے۔ اتنے چانس ملیں تو کوئی بھی کھلاڑی ایک سنچری تو بنا ہی لیتا ہے۔ لیکن یہاں مشکل سے سنگلز ہی سکور کی جارہی ہیں۔
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلی کے لئے شاید بہتر چوئس فواد چوہدری ہو سکتے تھے، ویسے بھی وہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا دفاع کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں جب کہ ایک سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے علاوہ محترک بھی ہیں۔خسرو بختیار کا تعلق جنوبی پنجاب محاذ سے ہے ۔ سوال یہ یے کہ اب وہ اپنے محاذ کو متحرک کریں گے یا تحریک انصاف کو، یہ فیصلہ کپتان اور نئے سیکرٹری جنرل اسد عمر پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن سوال یہ یے کہ خسرو کو تحریک انصاف جنوبی پنجاب کا صدر بنانے سے شاہ محمود قریشی کتنے خوش ہونگے کیونکہ پہکے تو جنوبی پنجاب کے معاملات کو وہ دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح سندھ کی تنظیمی ذمہ داری علی زیدی پر ڈال کر کپتان نے بڑا رسک لیا ہے کیونکہ یہاں دیہی اور شہری سندھ کی سیاست خاصی پیچیدہ ہے۔ اسکے علاوہ ماشا اللّٰہ پی ٹی آئی میں تین چار گروپس بھی واضح ہیں۔ان سارے فیصلوں کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ پارٹی کی تنظیمی ذمہ داریاں سونپے جانے والے سب لوگ وفاقی وزیر بھی ہیں۔ ایسے میں تنظیمیں بھی ان کے حوالے کرنے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے ۔
مظہر عباس سوال کرتے ہیں کہ پارٹی آخر کب تک حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کا دفاع کر سکے گی۔ پی ٹی آئی کی پرانی تنظیموں پر اپنی حالیہ شکستوں کا بوجھ ڈال کر کپتان نے خود کو اور اپنے وزیروں کو بچانے کی کوشش کی ہے اور اب پارٹی بھی انہی وزیروں کے حوالے کر دی ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر اگر NCOC میں بہتر کام کر رہے ہیں تو انہیں کرنے دیں، پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنانے کی کیا ضرورت تھی۔بہتر ہوتا کہ ان نامزدگیوں کے بجائے پارٹی میں ختم کر دیا جانے والا انتخابی عمل دوبارہ شروع کیا جاتا اور حکومت اور پارٹی کو الگ الگ رکھا جاتا۔ مظہر کے بقول، دراصل تازہ انتخابی شکست کا تعلق حکومتی پالیسیوں سے زیادہ ہے کیونکہ اس دوران میں ہونے والی ’’مہنگائی‘‘ کا دفاع کرنا نا ممکن ہے۔ کرپشن کے خلاف جنگ کپتان کا سب سے مضبوط بیانیہ تھا لیکن اگر خود حکومتی اداروں اور کابینہ میں کرپٹ لوگ موجود ہوں اور کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آنے لگیں تو ایسے میں آپ شریفوں اور زرداریوں پر الزامات لگا کر گزارہ نہیں کر سکتے۔ آپ اب اپنا غصہ یا تو اپوزیشن پراتار رہے ہیں یا اداروں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
مظہر عباس عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ لوگوں نے آپ کے بلند بانگ دعوئوں پر یقین کر کے آپ کو ووٹ دیا تھا کیونکہ آپ کہتے تھے کہ ’’میں تیار ہوں‘‘۔ آپ ہی تھے نا جو کہتے تھے کہ میرا ہوم ورک مکمل ہے، میرے پاس ایک بہترین ٹیم ہے۔ چھ مہینے میں معاشی انقلاب ، سول اور پولیس ریفارمز، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر۔ ان سب کی تیاری مکمل یے۔ لیکن گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ یہ سب بھرم تھا اور ظاہر ہے بھرم آخر کب تک قائم رہ سکتا ہے؟ ایک آخری بات‘ آپ حکومت کے بھی کپتان ہیں اور پارٹی کے بھی، ساری، تقرریاں اور نامزدگیاں بھی آپ کرتے ہیں۔ اب اگر دونوں محاذوں پر ناکامی کا سامنا ہے تو بنیادی طور پر ناکامیوں کی ذمہ داری کس کی ہے۔ آپ چوں کہ مغرب کو ہم سب سے اور خود مغرب والوں سے بہتر سمجھتے ہیں تو وہاں اگر پارٹی یا حکومت ناکام ہو جائے تو کون مستعفی ہوتا ہے؟

Related Articles

Back to top button