سیاسی ہواؤں کا رخ بدلتے ہی فیصل واوڈا کی چھٹی

سیاسی ہواؤں کا رخ بدلتے ہی حکومتی عہدیداروں کے خلاف پچھلے کئی برسوں سے زیر التوا فیصلے اب آنا شروع ہو گئے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دوہری شہریت رکھنے کے الزام میں اپنی نااہلی سے بچنے کے لیے پچھلے کئی برسوں سے عدالتوں اور الیکشن کمیشن کو مسلسل ماموں بنانے والے تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا کو نا اہل قرار دے دیا یے۔
8فروری 2022 کے روز الیکشن کمیشن نے 23 ستمبر 2021 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے فیصل واوڈا کو جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر نااہل قرار دے دیا اور ان کی سینیٹرشپ کا نوٹیفیکیشن بھی واپس لے لیا۔ الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ واوڈا جھوٹا حلف نامہ جمع کراوانے کے مرتکب ہوئے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق فیصل واوڈا 2018 کا الیکشن لڑنے کے وقت اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ واوڈا 2018 سے بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہیں اور مراعات بھی قومی خزانے میں واپس جمع کروائیں۔ تاہم الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ فیصل واوڈا اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتے ہیں۔
کیس کی سماعت کے دوران فیصل واوڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے حتمی دلائل میں کہا تھا کہ واوڈا نے پیدائش کا سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروا دیا ہے جسکے مطابق وہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری ہیں۔
وکیل نے بتایا تھا کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل واوڈا نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا، اور انہوں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ تاہم الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت فیصل واوڈا امریکی شہری تھے لہٰذا انہوں نے جھوٹا حلف نامہ داخل کیا۔واوڈا کے خلاف درخواست گزار قادر مندوخیل نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن موصوف سے انکی شہریت بارے کئی سالوں سے جواب مانگ رہا ہے جو کہ نہیں دیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ الیکشن 2018 میں ریٹرننگ افسر نے دوہری شہریت رکھنے پر واوڈا کے بجائے میرے کاغذات مسترد کر دیے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے 3 مارچ 2021 کے فیصلے میں لکھا تھا کہ بادی النظر میں فیصل واوڈا کا الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جانے والا حلف نامہ جھوٹا ہے جس کی انہیں سزا ملے گی۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی وزیر کے مستعفی ہونے کے باعث انھیں قومی اسمبلی کی نشست سے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے کے سنگین نتائج ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں واوڈا کا جمع کرایا گیا بیان حلفی بظاہر جھوٹا ہے اور اس پر الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا۔
2 دسمبر 2021 کو الیکشن کمیشن نے واوڈا کے خلاف دائر نااہلی کیس کا جلد فیصلہ کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے فریقین کو دلائل کے لیے آخری موقع دیا تھا۔ اس سے پہلے دہری شہریت کیس کا سامنا کرنے والے واوڈا نے پاکستان کے نظام انصاف کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے پہلے تو اڑھائی برس تک اپنے خلاف دائر نااہلی کیس میں تاخیری حربے استعمال کئے اور پھر سینیٹر بن کر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگانے کا الزام مان لیا
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن میں واوڈا کے خلاف دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ انہوں نے 11 جون 2018 کو الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کروائے جس میں اپنی دہری شہریت چھپائی حالانکہ وہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے وقت امریکی شہریت کے حامل تھے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ واوڈا کے کاغذات 18 جون 2018 کو منظور ہوئے جبکہ انھوں نے امریکی شہریت چھوڑنے کے لیے درخواست 22 جون 2018 کو جمع کروائی۔ انھیں امریکی سفارت خانے سے شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ 25 جون 2018 کو ملا جو کہ ان کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد تھا۔
درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے ہوئے دہری شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ موجود ہونا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ واوڈا کی اہلیت کو چیلنج کرنے والے عبدالقادر مندوخیل پہلے ہی واوڈا کی چھوڑی گئی کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی الیکشن میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل واوڈا کا شمار کراچی کی امیر کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے جن کی لندن میں بھی کئی مہنگی جائیدادیں موجود ہیں۔ وہ متعدد کاروبار کرتے ہیں جن میں بیرون ملک سے مہنگی گاڑیوں کی درآمد کا دھندہ بھی شامل ہے۔ وہ مہنگی گاڑیاں اور ہیوی بائیک بھی چلانے کا شوق رکھتے ہیں۔
فیصل واوڈا 2011 سے تحریک انصاف کے سرگرم کارکن کی حثیت سے جماعت کے ساتھ منسلک تھے۔ چونکہ ان کے پاس امریکی شہریت بھی تھی لہذا اس عرصے کے دوران ان کا امریکہ میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ واوڈا کا نام 2016 میں تب سامنے آیا جب قومی احتساب بیورو نے انھیں اثاثوں اور کراچی میں الاٹ کیے پلاٹوں کی چھان بین کے لیے نوٹس جاری کر کے طلب کیا تھا۔
پھر 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف نے انھیں کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 سے ٹکٹ دے دیا۔ انھوں نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کو چھ سو سے زائد ووٹوں سے ہرایا تھا۔
ان انتخابات کے نتائج کے بعد ہی ان کے خلاف درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس میں ان پر غیر ملکی اثاثے چھپانے کے علاوہ کاغذات نامزدگی میں حقائق توڑ موڑ کر پیش کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔