فوجی بوٹ سے پستول تک، نااہلی کا شکار فیصل واوڈا کی کہانی

وزیر اعظم عمران خان کی تحریک انصاف میں بد زبانوں کی تو کوئی کمی نہیں، لیکن اگر حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اوچھے اور شہدے لیڈران کا مقابلہ ہو تو فیصل واوڈا آسانی سے جیت جائیں گے۔ اور شاید ان کی یہی صلاحیت انہیں عمران کی نظروں میں باقی ساتھیوں کے مقابلے میں ممتاز کرتی ہے۔
جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے والے فیصل واوڈا کراچی کی ایک مشہور کاروباری شخصیت ہیں۔ ان کے پاکستان کے اندر اور بیرون ممالک کئی کاروبار ہیں، جن میں پرتعیش گاڑیوں کی درآمد کا دھندہ ٹاپ پر ہے۔ انہیں اکثر اوچھے لڑکوں کی طرح کراچی کی سڑکوں پر ہیوی بائیک چلاتے ہوئے شہدی حرکتیں کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جب وہ سیاسی مخالفین کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اپنے کپتان کی طرح خاندانی ہونے کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔
بعض لوگوں کے خیال میں انہیں خبروں میں رہنے کا فن آتا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں وہ کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور انہوں نے حیران کن طور پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو چھ سو سے زائد ووٹوں سے ہرا دیا۔ تاہم سب جانتے ہیں کہ فیصل واوڈا نے شہباز شریف کو کن قوتوں کی مدد سے شکست دی تھی۔
یہ وہی قوتیں ہیں جن کا ساتھ چھوٹ جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے واوڈا کو نا اہل قرار دے دیا ہے۔ یاد رہے کہ واوڈا کو سابق آئی ایس آئی سربراہ فیض احمد کے قریب تصور کیا جاتا تھا جن کی فراغت کے چند ماہ بعد ہی موصوف کی چھٹی ہو گئی۔ یہ واوڈا کے ایجنسی سربراہ سے ذاتی تعلقات ہی تھے جن کی بنا پر وہ پچھلے ساڑھے تین سال سے نااہلی سے بچے ہوئے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ فیصل واوڈا شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ڈونر کے طور پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریب ہوئے۔‘ 12 مئی 2007 کو کراچی میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدلیہ تحریک اور تشدد کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی بھی مقامی سیاست میں متحرک ہو گئی۔ اسی دوران فیصل واوڈا نے بھی اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔
واوڈا کی ایک وجہ شہرت ان کے جارحانہ بیانات ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عوامی مقامات پر اپنے منفرد انداز کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے ابتدائی بیانات ایم کیو ایم کے خلاف ہوتے تھے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی بھی ان کی تنقید کی زد میں آگئی۔ اردو نیوز نے 49 سالہ واوڈا سے جڑے اب تک کے پانچ بڑے تنازعات کا احاطہ کیا یے۔ فیصل واوڈا ٹی وی سکرین پر 2017 کے بعد تواتر سے نظر آئے۔ ابتدا میں ان کے نام کے ساتھ منفرد ذات واوڈا کے باعث وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے۔
پھر وہ اپنی غیرمعمولی سرگرمیوں اور متنازع بیانات کے باعث خبروں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں پر سوشل میڈیا پر بھی منقسم آرا سامنے آتی رہی ہیں۔ ان کی ان سرگرمیوں اور متنازع بیانات پر جب بھی کسی چینل پر پی ٹی آئی کے کسی رہنما سے ان کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے، یہ سوال فیصل واوڈا سے خود پوچھیں۔
فیصل واوڈا کو ایک نجی نیوز چینل کے لائیو ٹاک شو میں فوجی بوٹ کو میز پر رکھنے کے بعد شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 14 جنوری 2020 کو مقامی نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے اینکر پرسن کاشف عباسی کے پروگرام ’آف دا ریکارڈ‘ میں شرکت کے دوران فیصل واوڈا نے اچانک میز کے نیچے رکھے ہوئے ایک بوٹ کو ٹیبل رکھ دیا۔
اس ناپسندیدہ عمل کے نتیجے میں پروگرام میں شریک پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ اور مسلم لیگ ن کے بیریسٹر جاوید عباسی احتجاجاً اٹھ کر چلے گئے۔ اس پروگرام کے بعد سوشل میڈیا پر فیصل واوڈا پر شدید تنقید کی گئی اور انہیں ’بوٹ والی سرکار‘ کہہ کر پکارا گیا۔
ان دنوں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کرنے پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے مقبول نعرے ’ووٹ کو عزت دو‘ کو #بوٹکوعزتدو‘ ہیش ٹیگ کا ٹرینڈ بنا کر ن لیگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے فیصل واوڈا سے وضاحت طلب کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر دو ہفتوں کے لیے کسی بھی ٹی وی شو میں شرکت پر پابندی لگا دی۔
بجلی کی قیمت مزید 2 روپے 80 پیسے فی یونٹ بڑھانے کا فیصلہ
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ٹی وی پروگرام میں بوٹ لانے والے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے ’آف دا ریکارڈ‘ پروگرام پر دو ماہ کے لیے کی پابندی عائد کر دی تھی۔ کاشف عباسی کو بھی دو ماہ کے لیے کسی بھی ٹی وی چینل پر آنے سے روک دیا تھا۔
یہ معاملہ لاہور کی ایک مقامی عدالت بھی پہنچا جہاں ایک وکیل رانا نعمان نے فیصل واوڈا کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کی تضیک کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرانے کے لیے درخواست دی۔ اس پر عدالت نے تھانہ پرانی انار کلی کے ایس ایچ او کو فیصل کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔
نومبر2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر ایک شدت پسند حملے کے بعد فیصل واوڈا اپنے نجی گارڈز کے ساتھ جدید اسلحے سے لیس اور بلٹ پروف جیکٹ پہن کر چینی قونصل خانے کے باہر پہنچ گئے۔ مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے آئے ہیں اور وہ ملک کے لیے لڑیں گے۔ فیصل واوڈا کے اس عمل پر انہیں سوشل میڈیا پر آڑھے ہاتھوں لیا گیا اور ان کی کئی میم بنائی گئیں۔
فروری 2019 میں جب پاکستانی فضائیہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فضائیہ کا ایک لڑاکا طیارہ گرایا اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کیا تو فیصل واوڈا نے پستول کے ساتھ بھارتی جہاز کے ملبے پر پاؤں رکھ کر پاکستانی پرچم کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔
جون 2019 میں ایک نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر ملک میں پانچ ہزار بندوں کو سرعام لٹکا دیا جائے تو 22 کروڑ لوگوں کی قسمت بدل جائے گی۔
اس پر حامد میر نے انہیں آئین اور قانون کے تحت پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے کا مشورہ دیا تو فیصل نے کہا کہ اس طرح تو 20 نسلیں گزر جائیں گی مگر ان کی خواہش پر عمل نہیں ہوسکے گا۔ اس بات پر بھی سوشل میڈیا صارفین نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
نومبر 2019 میں فیصل واوڈا اور اس وقت کے میئر کراچی وسیم اختر کے درمیان الفاظ کی جنگ کا خاصہ چرچا رہا۔ یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب فیصل واوڈا نے کراچی کے صحافیوں سے گفتگو میں وسیم اختر پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ اس غیرضروری بیان سے حکومت کے لیے سیاسی مشکلات پیدا ہوئیں جب وسیم اختر نے فیصل کو ’ان گائیڈیڈ میزائل‘ (یعنی بغیر ہدف کا ہتھیار) قرار دیا۔
ویسم اختر نے وزیراعظم سے اپیل کی وہ انہیں سمجھائیں ورنہ ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ ابھی واضح نہیں کہ آیا الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کے بعد وہ پاکستان کے سیاسی افق پر موجود رہیں گے یا نہیں۔ تاہم تاریخی طور پر اس قسم کے عدالتی فیصلے کم ہی کسی کو سیاست سے دور رکھ پائے ہیں۔