حکومت میڈیا مخالف پیکا قانون پر پیچھے ہٹنے لگی

کپتان حکومت کی جانب سے میڈیا مخالف پیکا قانون میں صدارتی آرڈینینس کے ذریعے کی گئی ڈریکونین ترامیم کے خلاف سخت ترین عدالتی ریمارکس اور صحافی برادری کی ملک گیر تحریک کے بعد اب حکومت نے پیچھے ہٹتے ہوئے اس پر نظرثانی کا عندیہ دے دیا ہے۔ وزیر اطلاعات چوہدری فواد نے پیشکش کی ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے صحافتی تنظیموں کے ساتھ بیٹھ جائیں اور حال ہی میں کی گئی ترامیم پر نظر ثانی کر لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پرویز الٰہی پیکا قانون میں حالیہ ترمیم واپس لینے کی سفارش کریں گے تو معاملہ حتمی فیصلے کے لئے وفاقی کابینہ کو بھجوا دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے حال ہی میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پیکا قانون میں ترامیم کر کے ہتک عزت کو سول سے فوجداری جرم بنا دیا ہے۔ حکومت کے میڈیا مخالف عزائم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہتک عزت کو ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیا ہے جس کی سزا 5 سال قید ہو گی۔ پیکا قوانین میں ترامیم کے تحت فیک نیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے کی گرفتاری کیلئے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو اب کسی وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
تاہم حکومتی بدنیتی یوں ظاہر ہوتی ہے کہ ترمیم شدہ پیکا قانون میں فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی اور یہ فیصلہ حکومت ہی کرے گی کہ کون سی خبر فیک نیوز قرار پائے گی۔ اس کے علاوہ ضروری نہیں کہ غلط خبر کسی شخص سے متعلق ہو، اگر یہ کسی ادارے، تنظیم یا کمپنی سے متعلق ہو تو بھی اس قانون کے تحت متاثرہ شخص، ادارہ یا تنظیم خبر چلانے والے کیخلاف کارروائی کی درخواست دے سکتا ہے، کچھ صورتوں میں تو غلط خبر کیخلاف درخواست دینے والا تیسرا فرد بھی ہو سکتا ہے۔
پیکا قانون میں حالیہ ترامیم کے ناقدین کا کہنا ہے کپتان حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے پر تلی ہوئی ہے اور ”فیک نیوز“ کی تشریح کیے بغیر اظہار رائے کی آزادی ختم کرنا چاہتی ہے اور جائز تنقید بھی دبانے کی کوشش کررہی ہے، جس کے باعث اب آپ واٹس ایپ پر کوئی پیغام ڈالنے والا، فیس بک پر کوئی تصویر لگانے والا یا انسٹاگرام پر معلومات شئیر کرنے والا سیدھا جیل جا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام بڑی صحافتی تنظیمیں بشمول پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹر اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اس قانون کی واپسی کے لیے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی پریویشن آف الیکٹرانک میڈیا کرائمز ایکٹ میں نئی ترامیم کو جابرانہ اور آمرانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے جبکہ اسلا م آباد ہائیکورٹ نے پیکا قوانین کو میڈیا مخالف قرار دیتے ہوئے حکومت کو اس کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی اہم ترین اتحادی جماعتوں قاف لیگ اور ایم کیو ایم نے بھی حکومت سے پیکا قانون میں کی گئی ترامیم فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ تاہم دوسری جانب حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ قوانین میں یہ ترامیم سوشل میڈیا پر غلط خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کی گئی ہیں تاکہ کوئی شخص کسی بھی دوسرے شخص یا ادارے کو بدنام نہ کر سکے۔
لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ملک میں ہتک عزت کے حوالے سے پہلے ہی ایک علیحدہ قانون موجود ہے لہذا پیکا قانون میں ترمیم کر کے اسے ایک فوجداری جرم بنا سراسر زیادتی ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے متعارف کرائی گئی ترامیم کیخلاف سول سوسائٹی بھی سراپا احتجاج ہے اور اسے آزادی رائے پر قدغن لگانے کی ایک حکومتی کوشش قرار دے رہی ہے۔
تاہم اہم ترین سوال یہ ہے کہ کسی خبر کے جعلی یا فیک ہونے کا تعین کون کرے گا، ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ترمیم شدہ قانون میں جان بوجھ کر فیک نیوز کی تشریح نہیں کی اور ایک خلا رکھا ہے تاکہ من مرضی سے کسی بھی شخص کو گرفتار کیا جا سکے۔ اس قانون کے مخالفین کا کہنا ہے ایک بات ایک شخص کے نزدیک غلط تو دوسرے کے نزدیک صحیح ہو سکتی ہے اسی لئے قانون میں فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی تاکہ اسے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ جب پاکستان میں ہتک عزت کیخلاف الگ سے قانون موجود ہے تو پیکا قانون میں ہتک عزت کو قابل سزا جرم قرار دینے کا واحد مقصد حکومتی ناقدین کا گلا گھونٹنا اور ان کی آوازیں بند کرنا ہے۔ تاہم اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیکا قانون کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج اور عدالتی تحفظات کے بعد حکومت نے بیک فٹ پر جانا شروع کر دیا ہے۔
government began to back down on the anti-media PKA law video