تحریک انصاف میں شگاف نہ پڑتا تو شاید عمران بچ جاتے

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کا امکان اس لئے ختم ہو چکا ہے کہ ان کی اپنی حکومتی جماعت کے اندر جہانگیر ترین اور علیم خان نے ایک بڑا شگاف ڈال دیا ہے جسے بھرنا اب ناممکن نظر آتا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں زاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں ایک زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے اور حزبِ اختلاف نے اب وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا مظہر ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں اتنے ووٹ جمع کرلیے ہیں کہ وہ عمران حکومت کو چلتا کرسکیں۔

یقینی طور پر یہ قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا ہے اور اس وقت حالات کسی بھی طرح پی ٹی آئی کے حق میں نہیں ہیں۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی منتخب حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دوسری جانب اپوزیشن کا یہ موقف بھی درست ہے کہ ماضی میں نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتیں تحریک عدم اعتماد سے اس لیے بچ نکلیں کہ ان کی جماعت کے کسی رکن نے اپنی وفاداری تبدیل نہیں کی تھی جبکہ تحریک انصاف میں تو پہلے ہی واضح پھوٹ پڑ گئی ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ تبدیلی کا کھیل شروع ہو چکا ہے اور طرفین سیاسی بھاؤ تاؤ شروع کرچکے ہیں۔ بہر حال اب ووٹنگ کا انتظار ہے۔ پاکستانی سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اسی وجہ سے ابھی کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حکومت کے خلاف متحد ہوجانے کے بعد گزشتہ کچھ ماہ کے دوران ملک کے سیاسی منظرنامے میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔

اس احساس نے بھی اپوزیشن کو محترک کر رکھا ہے کہ ملک کی عسکری قیادت نے خود کو حکومت اور سیاست سے دُور کرلیا ہے۔ انتظامیہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے پیپلز پارٹی نے عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل اسلام آباد کی جانب مارچ بھی کیا جس سے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھ گیا۔ لہکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے اقدامات کے بجائے خود حکومتی جماعت میں پیدا ہونے والا انتشار حکومت کے لیے ذیادہ مہلک ثابت ہوگا۔

حکومتی جماعت کے ناراض اراکین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے وزیرِاعظم کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے خلاف سامنے آنے والے پی ٹی آئی کے دھڑوں نے ایک ایسے گروہ سے پردہ اٹھایا ہے جو مرکز میں بھی پی ٹی آئی حکومت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ایک جانب حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس بڑی لڑائی کے لیے تیاری کررہی ہیں تو دوسری جانب وزیرِاعظم بھی آخری دم تک لڑنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ عوام میں جانے کا ان کا فیصلہ حالات کو اپنے حق میں کرنے کی ایک مایوس کن کوشش نظر آرہی ہے۔ اپنے جلسوں میں وہ اپوزیشن کی قیادت کے بارے میں جو بیہودہ زبان استعمال کر رہے ہیں وہ ان کی کمزوری کا اظہار ہے اور شاید وہ اس سے کچھ حاصل نہ کرسکیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے حملے صرف حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں پر نہیں تھے بلکہ انہوں نے عوام میں کھڑے ہوکر مغربی ممالک پر بھی سخت تنقید کی اور ان کے دہرے معیار کو بُرا بھلا کہا۔ بہت کم ہی ایسا دیکھا گیا ہے کہ کوئی سربراہ حکومت ملکی سیاست کے لیے حساس خارجہ معاملات کا اس طرح استعمال کرے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ اگرچہ ماضی میں بھی وزیرِ اعظم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات ہمارے خارجہ تعلقات کو نقصان پہنچا چکے ہیں لیکن حالیہ بیانات تو انتہائی نامناسب تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اہم خارجہ اور سیکیورٹی معاملات کو بہتر طور پر نہیں سمجھتے۔

لگتا ہے کہ ایسا عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش والے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے کیا گیا ہے جس سے ان کے ساتھ شدت سے دو رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے مغربی ممالک کا ہاتھ ہے۔ یہ عوامی سیاست کی ایک بہت پرانی چال ہے کہ جب بھی حکمرانوں پر مشکل حالات آئیں تو قومیت کا پتہ کھیلا جائے۔ لہکن شاید اس مرتبہ یہ چال بھی نہ چلے کیونکہ صورتحال قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال بلاشبہ ان کے سامنے آنے والا اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ لیکن درحقیقت حزبِ اختلاف کے اتحاد سے ذیادہ خطرناک صورتحال تحریک انصاف کے اندر سے اٹھنے والی بغاوت نے پیدا کر دی ہے بجائے جو کہ عمران خان کے لیے بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

لگ رہا ہے کہ وزیرِاعظم اس بغاوت کو روکنے کے لیے اپنے لاڈلے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ عثمان بزدار کی جگہ نئے امیدوار پر اتفاق نہیں ہے۔ ایک جانب عمران خان کے اتحادی پرویز الہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں تو دوسری جانب حکومتی جماعت تحریک انصاف کے علیم خان بھی بھی وزیر اعلی کے امیدوار کے طور پر سامنے آگئے ہیں۔

لیکن اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وزیرِاعظم اہم ترین صوبے کی اہم ترین کرسی کسی اتحادی کے حوالے کردیں۔ لہذا اس بات کا امکان ہے کہ گجرات کے چوہدری ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے کا فیصلہ کر لیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں جہانگیر ترین اور علیم خان کی بغاوت سے تحریک انصاف کے اندر جو شگاف پڑا ہے وہ اتنا گہرا ہے کہ اسے صرف پیوند لگا کر نہیں بھرا جاسکتا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے پاس معمولی اکثریت ہے اور مسلم لیگ (ق) اگر اپنی حمایت ختم کر دے تو پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کا گرنا طے ہوجائے گا، یوں ملک کی تمام تر سیاست ہی بدل جائے گی۔

بقول زاہد حسین، پنجاب کی حکومت گرنے سے واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگا جو بلآخر اس پورے نظام کے خاتمے پر منتج ہوگا۔ عوامی بیانات کی مدد سے رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کی وزیرِاعظم کی کوشش شاید اب حالات کو نہ بدل سکے۔

یہ بات اب صاف ظاہر ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت ہونے کے باوجود وہاں کی عوامی سیاست پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ صوبے میں پی ٹی آئی کے غیر مقبول ہونے کے کئی عوامل میں سے ایک اہم وجہ عمران خان کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ کے لیے عثمان بزدار کا انتخاب تھا۔ اس وجہ سے پنجاب میں پی ٹی آئی کے اندر بڑھتی ہوئی نااتفاقی کسی بھی طور پر حیران کن نہیں ہے۔

وزیرِاعظم کے لیے پنجاب میں حکومت سے متعلق بحران کو حل کیے بغیر تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ حزبِ اختلاف کا دعویٰ ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ٹکٹ دیے جانے کے وعدے پر پی ٹی آئی کے کئی اراکین قومی اسمبلی میں ان کا ساتھ دینے کے لیے راضی ہیں۔

تاہم اپوزیشن اتحاد کے لیے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی وفاداری خریدنا اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔ یہ طاقت کا ایسا مضحکہ خیز کھیل ہے کہ جس میں اراکین سب سے اچھی پیشکش کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ آگے کیا ہوتا ہے یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آیا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس کھیل میں نیوٹرل رہتی ہے یا نہیں۔ اس عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ ہی ملکی سیاست کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

شاید پی ٹی آئی حکومت کا جانا بھی غیر یقینی کی موجودہ صورتحال کو ختم نہ کرسکے۔ عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کی صورت میں اپوزیشن جماعتوں میں مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن کی ناکامی کی صورت میں حکومت کا طرزِ عمل مزید آمرانہ ہوسکتا ہے۔

Had there not been a rift in PTI Imran might have survived

Related Articles

Back to top button