کیا کپتان نے وزرا کو ملک برباد کرنے کے صلے میں ایوارڈز دئیے؟

پاکستان کی 74 سالہ تاریخ ناکام ترین وزیراعظم قرار دیے جانے والے عمران خان کی جانب سے اعلیٰ ترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر اپنے 10 چہیتے وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کو آسکر ٹائپ ایوارڈز دئیے جانے کا عمل کپتان کے گلے پڑ گیا ہے اور ناقدین کی جانب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا انہیں پاکستان تباہ و برباد کرنے کے صلے میں نوازا گیا ہے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر پاکستان کے وزراء اتنے ہی قابل تھے تو پھر ساڑھے تین برسوں میں پاکستان اور اسکی معیشت تباہی کے دھانے پر کیوں پہنچ گئی۔ وزیراعظم نے اپنے وزراء میں آسکر ایوارڈز تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد وزرا میں بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے مقابلے کا ماحول پیدا کرنا ہے لیکن ناقدین سوال کرتے ہیں کہ ایسے میں سب سے نکمےوزیر مراد سعید کو منڈا نمبر ون کس بنیاد پر قرار دیا گیا ہے؟
کپتان نے میرٹ کی بجائے اپنی ذاتی پسند اور ناپسند پر جس طرح وزارتیں تقسیم کی تھیں اسی طرح اب کارکردگی کے آسکر ایوارڈز بھی تقسیم کئے گئے۔ اندھے کی جانب سے اپنے پیاروں میں ریوڑیاں بانٹنے کے عمل نے کابینہ کے کئی اراکین کو بھی ناراض کر دیا ہے اور وزیر مملکت علی محمد خان نے تو اس عمل پر کھلم کھلا اظہار ناراضی کر دیا ہے۔
اپنے ردعمل میں ان کا کہنا تھا کہ جو وزراء اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے، اور قائمہ کمیٹیز کے اجلاس تک میں نہیں آتے، وہی ایوارڈ کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد نے دس وفاقی وزارتوں کو بہترین کارکردگی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس لئے جگہ نہیں بنا سکے کہ کارکردگی ان رپورٹس کی بنیاد پر جانچی جاتی ہے جو وزرا خود بنا کر وزیراعظم آفس کو دیتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان خود اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سربراہ ہیں لیکن اس ڈویژن کو بھی کارکردگی فہرست میں کوئی جگہ نہیں ملی۔ یاد رہے کہ وزیراعظم کی اپنی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو فہرست میں 18واں نمبر ملا ہے، یعنی آسکر ایوارڈز کے کھاتے میں وزیراعظم کی اپنی کارکردگی 18 ویں نمبر پر رہی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن وزرا کو بہترین کارکردگی دکھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ان کے کھاتے میں کئی بڑی ناکامیاں ہیں، جو لوگ ناکام ہوئے ہیں وہ ایسے شعبوں کے سربراہان ہیں جن کے متعلق حکومت عموماً دعوے کرتی ہے کہ انہوں نے شاندار کام کیا ہے۔ مثال کے طور پر وزارت خزانہ کو بہترین کارکردگی دکھانے والے 10 افراد کی فہرست میں کوئی جگہ نہیں ملی حالانکہ عمران خان بار بار دعوی کرتے ہیں کہ انکی حکومت نے معاشی محاذ پر بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
عمران کے مستقبل کا فیصلہ 23 مارچ سے پہلے ہونے کا امکان
حکومت دس ارب درخت لگانے کے سونامی پروجیکٹ کو اپنا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیتی ہے اور اصرار کرتی ہے کہ اس سے ماحولیات کے شعبے میں بہت بڑا کام کیا گیا ہے لیکن جن لوگوں نے اس پروجیکٹ پر کام کیا ہے انہیں 10؍ بہترین کارکردگی دکھانے والوں کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اسی طرح وزیراعظم نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ پاکستان نے کرونا سے نمٹنے کیلئے تشکیل دی گئی پالیسی کے مطابق عمل کرنے میں بہترین کام کیا ہے جو دیگر ملکوں کیلئے ایک مثال ہے۔
لیکن یہاں بھی وزارت صحت کی کوئی تعریف کی گئی اور نہ وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے کام کو سراہا گیا۔ تاہم، وزارت خارجہ اور اس کے وزیر کو وہی ملا جو ان کا حق تھا کیونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات ماضی کے مقابلے میں خراب ہوئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اپنے چکنے وزیر حماد اظہر کی مسلسل تعریف کرتے ہیں لیکن آسکر ایوارڈز کی تقریب نے توانائی کے شعبے میں حماد اظہر کی وزارت اور ان کی خراب کارکردگی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
کئی لوگ ایسے ہیں جو خود کو ترّم خان سمجھتے ہوں گے لیکن انہیں بھی کارکردگی کی فہرست میں خراب جگہ ملی۔ وزیر قانون فروغ نسیم ایسی مثالوں میں سے ایک ہیں اور ایک ذریعے نے تو یہ بھی کہا ہے کہ فروغ نسیم کے تحت وزارت قانون کو سازشوں اور غلط مشورے دینے کے معاملے میں فہرست میں اول نمبر پر رکھنا چاہئے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی بدقسمت ٹھہرے کہ کپتان کے ذہن میں ان کا نام تک نہ آیا۔ تاہم، یہ معلوم نہیں کہ نیشنل فوڈ سیکورٹی کی وزارت کو بہترین کارکردگی دکھانے والوں کی فہرست میں کیوں شامل کیا گیا حالانکہ پاکستان ماسوائے چاول تقریباً سبھی اناج درآمد کر رہا ہے۔
سی پیک کے تحت وزارت مواصلات بڑی سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر کی ذمہ دار ہے لیکن وزارت کے سبھی پروجیکٹس تاخیر کا شکار ہیں۔ سکھر حیدرآباد موٹر وے گزشتہ پانچ سال سے تاخیر کا شکار ہے۔ سی پیک کی مغربی راہداری کو 2018ء میں مکمل ہونا تھا لیکن یہ گزشتہ ماہ کی مکمل ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مراد سعید کو نمبر ون وزیر قرار دیا گیا ہے۔
سی پیک کے مسائل کے باوجود اسد عمر کو دوسرا بہترین وزیر قرار دیا گیا۔ شیرین مزاری کو بھی بہترین کارکردگی دکھانے والوں میں شامل کیا گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو گمشدہ افراد کے حوالے سے پیش کی گئی اس قانون سازی میں کامیابی نہیں ملی جس پر شیرین مزاری نے کام کیا تھا۔
سوال یہ بھی ہے کہ شیخ رشید عرف شیدے ٹلی نے ایسا کیا کر دکھایا ہے کہ انہیں بہترین کارکردگی دکھانے والوں میں شامل کیا گیا ہے۔ حقیقتاً، امن عامہ کی صورتحال بگڑ رہی ہے اور دہشت گردی نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ رزاق دائود کو بھی بہترین کارکردگی دکھانے والا قرار دیا گیا ہے حالانکہ سوال تو یہ کرنا چاہئے کہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں تاریخی کمی اور برآمدی شعبے کو دی گئی سہولتوں اور بے مثال مراعات کے باوجود ملکی برآمدات میں کمی کیوں ہو رہی ہے۔
کپتان کی جانب سے آسکر ایوارڈز حاصل نہ کر سکنے والے وزراء میں شبلی فراز، غلام سرور، پرویز خٹک، زبیدہ جلال، عمر ایوب، طارق چیمہ، امین الحق، فہمیدہ مرزا، علی امین گنڈا پور، فواد چوہدری، فروغ نسیم، علی حیدر زیدی، اعجاز احمد شاہ، محمد میاں سُومرو، اعظم سواتی، صاحبزادہ محبوب سلطان ، مونس الٰہی اور دیگر شامل ہیں۔ لیکن ایسی کوئی فہرست نہیں جاری کی گئی جس سے اندازہ ہو سکے کہ کس وزیر موصوف نے بد ترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔