عمران شکست سے بچنے کے لیے پر تشدد ہونے والے ہیں

معروف صحافی نجم سیٹھی نے انکشاف کیا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح سے شکست سے بچنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی حکمت عملی یہ ہے کہ پرتشدد طریقوں سے اپنی برطرفی کی مزاحمت کی جائے اور فوج کو ایک بار پھر سیاست میں گھسیٹا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے دن اسلام آباد کے ڈی چوک پر قبضہ کرنے، پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے اور تحریک انصاف کے منحرفین کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اپنی یوتھیا بریگیڈ کو بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے ردعمل میں اگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنے اراکین کو اکٹھا کر لیا تو تصادم کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اس انتظار میں ہیں کہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہو تا کہ وہ پارلیمنٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر کے یوم حساب ٹال دیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے لئے اپنے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی لکھتے ہیں کہ اگلے وزیراعظم کا تعین کرنے کے لیے نمبروں کا کھیل بالآخر شروع ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس 155 ووٹ ہیں، جب کہ اسکے اتحادیوں کی 24 نشستیں ہیں۔ اس طرح حکومت کو کل ملا کر 179 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ مشترکہ حزب اختلاف کے پاس 162 ووٹ ہیں۔ اگر کم از کم 10 اراکین حکومت سے حزب اختلاف میں چلے جاتے ہیں تو اسے 172 کا جادوئی نمبر حاصل ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ہی عمران خان گھر چلے جائیں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کے کتنے اور کہاں تک امکانات موجود ہیں؟
بقول نجم سیٹھی، حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے کم از کم 20 اراکین اسمبلی پہلے ہی رائے شماری کے دن فلور کراس کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ کچھ لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وسطی یا شمالی پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ یا سندھ یا جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے کے امکانات کی وجہ سے ”متاثر” ہوئے ہیں۔ اگر اس دعوے میں نصف سچائی بھی ہوئی تو معرکے والے دن میدان حزب اختلاف کے ہاتھ رہے گا۔حکومت کے اتحادیوں میں ق لیگ کے (5 ووٹ)، ایم کیو ایم کے (7 ووٹ)، بی اے پی کے (5 ووٹ)، جی ڈی اے کے (3 ووٹ)، آزاد اراکین کے (2 ووٹ)، شیخ رشید کا (1 ووٹ) اور جے ڈبلیو پی کا بھی (1 ووٹ) شامل ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حزب اختلاف نے تحریک انصاف کے اراکین کو توڑ کر اپنی گنتی پوری کرلی تو وہ خسارے میں رہیں گے۔ لہٰذا وہ سب اس حکومت کی شاخوں سے پرواز کرنے اور اگلی جماعت میں نشستیں حاصل کرنے کے لیے شرائط پر گفت و شنید کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوا تو حزب اختلاف 200 سے زائد ووٹوں کی زبردست اکثریت سے عمران خان کا تختہ الٹ سکتی ہے۔
نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے عمران خان دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور اپنے غرور اور تکبر کی کڑوی گولی نگل کر ترغیبات کے ذریعے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی تگ و دو میں ہیں۔ لیکن ان کی اصل توجہ اپنے ساتھیوں کو حزب اختلاف کی جانے سے روکنے پر ہے۔ انکی جانب سے یہ تاثر قائم کرنا مقصود ہے کہ اُن کا پایہ مضبوط ہے، اور وہ کہیں نہیں جارہے، اس لیے اُن کے حامی دلبرداشتہ نہ ہوں اور ان کے ساتھ ہی رہیں۔ عمران خان کی حکمت عملی رائے شماری کے دن اپنے اراکین قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ میں آنے سے روکنا ہے۔
اور اگر وہ ان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر اُن کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو اسپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر اُن کی تحریک انصاف کی رکنیت ختم کرکے ان کے ووٹ کینسل کر دیں۔ لیکن آئینی طور پر وہ انہیں اپنے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روک سکتے، اگر طے شدہ طریق کار کے مطابق چلا جائے تونااہلی کے عمل میں چار مہینے لگ سکتے ہیں۔ قانون کے مطابق اس معاملے میں ایک ماہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اور تین ماہ سپریم کورٹ میں اپیلوں میں صرف ہوں گے۔ لیکن اسپیکر آئینی طریق کار ایک طرف رکھ کر عمران خان کو پچھلے قدموں پر جاتے ہوئے لڑنے کا موقع دے سکتے ہیں۔
لیکن بقول نجم سیٹھی، حزب اختلاف یہ جانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسی وقت اتحادیوں سے مذاکرات کر رہی ہے کیونکہ انہیں سپیکر حزب اختلاف کے ساتھ اتحاد کرنے سے نہیں روک سکتے۔ لیکن ووٹنگ کا دن ہنگامہ خیز اور گھمبیر ہونے کا خدشہ موجود ہے خاص طور پر وزیراعظم کی بڑھتی ہوئی فرسٹریشن کو دیکھتے ہوئے۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ اسیٹبلشمنٹ نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ اب عمران خان کی حمایت نہیں کر رہی، اور وہ ”غیر جانبدار” ہے۔ لیکن اگر عمران خان بچ جاتے ہیں تو اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ پر الزام عائد کرے گی کہ اس نے آخری لمحات میں اتحادیوں کو خان کے ساتھ جڑے رہنے کا اشارہ دے کر حکومت کی ڈوبتی نبضیں بحال کردیں۔ لیکن اگر عمران کی حکومت ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنائیں گے کہ اس نے کچھ حقیقی یا فرضی وجوہات کی بنا پر ان کے خلاف سازش کی۔
لیکن نجم سیٹھی کے خیال میں کھیل ختم نہیں ہوتا جب تک حتمی سیٹی نہیں بج جاتی۔ اگر عمران خان کو ہٹا بھی دیا جاتا ہے تو حزب اختلاف کو اگلے مرحلے کے لیے مل کر طریق کار طے کرنا ہوگا۔ اسلام آباد میں اگلی حکومت کون بنائے گا؟ یہ کب تک چلے گی؟ انتخابات، احتساب اور بجٹ قوانین میں کن ”اصلاحات” کی ضرورت ہوگی؟ مختلف صوبائی اسمبلیوں کی قسمت کا کیا فیصلہ کیا جائے گا، ان کی سربراہی کون کرے گا اور یہ کب تحلیل ہوں گی؟فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اتحادیوں، جیسا کہ ق لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈبلیو ڈی، بی اے پی وغیرہ کی مستقبل کے بندوبست میں کیا جگہ ہو گی؟ اگر ایسے تیکھے سوالات کا جلد جواب نہ تلاش کیا گیا تو تمام کاوش رائگاں جانے کا اندیشہ موجود ہے کیونکہ ایسا ہوا تو پھر اسٹیبلشمنٹ قدم آگے بڑھا کر ان معاملات کا حل نکالے گی جس میں ہر کسی کا نقصان ہوجائے گا۔
نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ بقول اسد عمر، عمران خان اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ووٹنگ کے دن اسلام آباد کے ڈی چوک پر قبضہ کرنے، پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے اور تحریک انصاف کے منحرفین کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اپنی یوتھیا بریگیڈ کو بلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس کے ردعمل میں مولانا فضل الرحمان نے اپنے ”رضاکاروں“ کو حکم دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ لاجز میں جے یو آئی کے اراکین اسمبلی کو پولیس کے ہاتھوں ہراساں، اغوا یا گرفتار ہونے سے بچائیں۔ تاہم حکومت نے 10 مارچ کی رات سپیکر قومی اسمبلی کی اجازت سے اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز میں ایک گرینڈ آپریشن کیا اور مولانا کی رضا کار فورس کے اراکین سمیت 2 اسمبلی کو گرفتار کرلیا۔ اس صورتحال میں اگر پی پی پی کے جیالوں اور پی ایم ایل این کے متوالوں کو میدان میں اترنے کے لیے اکسایا جاتا ہے، تو پرتشدد جھڑپوں کی نوبت آجائے گی۔ دوسری جانب سپیکر اسد قیصر اس انتظار میں ہیں کہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہو تا کہ وہ پارلیمنٹ کا اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر کے یوم حساب ٹال دیں۔
نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ عمران خان کی دھمکیاں بھی خوب ہیں۔ گزشتہ نومبر سے جب اسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان تناؤ پیدا ہوا اور جب یہ بیانیہ تقویت پانے لگا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش میں ہے، عمران خان نے اپنی روانگی کی حکمت عملی طے کرلی تھی۔ یہ مزاحمت کے پانچ ستونوں پر مبنی ہے۔ ایک، حزب اختلاف کو چوروں اور لٹیروں کے گروہ کے طور پر ہدف تنقید بنانا جاری رکھیں اور شور مچاتے رہیں کہ وہ حکومت میں کسی جگہ کے حقدار نہیں ہیں۔ن کی ذاتی توہین کر کے انہیں اکسائیں۔ دو، امریکہ مخالف، مغرب مخالف، بھارت مخالف جذبات کا مقبول عام بیانیہ ارزاں کریں، چاہے یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مفادات کو شدید زک پہنچائے، تاکہ وہ کہہ سکیں کہ اُنہیں ہٹانے کے لیے عالمی سازش کی گئی ہے۔
مسلم لیگ ق کا حکومتی اتحاد چھوڑنے کا قوی امکان
تیسرا، آرمی چیف کو برطرف کرنے اور اپنے آدمی کو مقرر کرنے کے اپنے ”ایٹمی” آپشن سے اسٹیبلشمنٹ کو دھمکیاں دیں۔ چوتھا، قومی اسمبلی کے سپیکر کو ہدایت کریں کہ وہ اپوزیشن کی طرف سے انہیں پارلیمنٹ میں معزول کرنے کی کسی بھی کوشش میں رکاوٹ ڈالیں، قطع نظر اس کے کہ ایسا کرنا غیر قانونی ہو۔ پانچویں یہ کہ آئینی طریقوں سے حکومت کو ہٹانے میں جسمانی اور پرتشدد رکاوٹیں ڈالنے کے لیے اپنے نوجوانوں کو متحرک کریں۔ مختصر یہ کہ عمران خان کی حکمت عملی یہ ہے کہ پرتشدد طریقوں سے برطرفی کی مزاحمت کی جائے اور فوج کو ایک بار پھر مداخلت پسند سیاست میں گھسیٹ لیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، اگرعمران خان حکومت نہیں ہوگی تو اُن کی متبادل ترجیح ملک میں سیاسی افراتفری پھیلانا ہے۔کچھ لوگ اس جنونی سوچ کا موازنہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہتھکنڈوں سے کررہے ہیں۔
Imran is going to be violent to avoid defeat Urdu News