جھوٹے عمران خان کو پاک فوج نے سخت وارننگ دے دی

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے الزام تراشی میں تمام حدود پار کرتے ہوئے حاضر سروس انٹیلی جنس آفیسر میجر جنرل فیصل نصیر پر قتل کا الزام عائد کرنے پر پاک فوج نے نہ عمران خان کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے الزام تراشیوں بارے سخت وارننگ بھی دے دی ہے۔ ترجمان پاک فوج نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے انٹلیجنس ایجنسی کے اعلی افسر پر الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدنیتی پر مبنی من گھڑت الزامات انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے، جھوٹے الزامات کا سلسلہ بند کیا جائے، پاک فوج بدنیتی پر مبنی بیانات اور پراپیگنڈہ کیخلاف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے فوج کے سینئر افسرپر تنقید کے جواب میں آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک برس سے فوج اور خفیہ اداروں کےافسران کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے لاہور میں ریلی سے خطاب میں ملک کے طاقتور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر کا نام لے کر الزام لگایا تھا کہ ان پر قاتلانہ حملہ اور صحافی ارشد شریف کا قتل فیصل نصیر نے کرایا تھا۔

واضح رہے کہ فوج کے اعلیٰ افسر میجر جنرل فیصل نصیر پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پہلی مرتبہ الزامات عائد نہیں کیے بلکہ ماضی میں بھی وہ ایسے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم ’ڈرٹی ہیری‘ کا استعارہ بھی استعمال کرتے رہے ہیں جو بعض مبصرین کے مطابق انہی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بغیر کسی ثبوت کے حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔فوج کے بیان کے مطابق یہ من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی الزامات انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور نا قابلِ قبول ہیں۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک برس سےیہ وطیرہ بنا لیا گیا ہے کہ فوج اور خفیہ اداروں کے حکام کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جائے۔فوج کے ترجمان بیان میں سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قانونی راستے کا سہارا لیں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔آئی ایس پی آئی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج واضح طور پر جھوٹے اور غلط بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کا حق رکھتی ہے۔

فوج کی جانب سے بیان پر تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر نے حیران کن پریس ریلیز جاری کی ہے۔انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان پر قاتلانہ حملے میں کوئی افسر ملوث ہے تو اس کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے اور سابق وزیرِ اعظم کو مطمئن کیا جانا چاہیے کہ ایسا نہیں ہے۔فواد چوہدری نے فوج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’الزام کی تحقیقات سے انکار اور ایسے بیان سے آپ بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں آپ قانون سے بالاتر ہیں۔‘‘ان کے مطابق ایسے رویے قوموں کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے وزیرآباد میں خود پر ہونے والے حملے کے بعد ایف آئی آر درج کرانے کے لیے جو درخواست دائر کی تھی اس میں آئی ایس آئی کے افسر میجر جنرل فیصل نصیر کا نام بھی شامل تھا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کا دعویٰ تھا کہ ان کے قتل کی سازش انہوں نے کی تھی۔ان کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کو بھی اس کیس میں نامزد کیا گیا تھا لیکن یہ ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی تھی اور پولیس نے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا۔

عمران خان کے الزامات کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نےایک بیان میں کہا کہ عمران نیازی کی سیکیورٹی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے فوج اورخفیہ اداروں پر تنقید کر رہے ہیں۔وزیرِ اعظم کے مطابق میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے الزامات عائد کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔

عمران خان کے بیانات پر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ایک شخص اداروں کو بد نام کرنے کی ہر حد کو عبور کرچکا ہے جسے اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ایک بیان میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ اب بس بہت ہوگیا، غیرملکی ایجنٹ کی لاہور میں ہونے والی تقریر سننے کے بعد کوئی محب وطن اس کی پیروی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ میجر جنرل فیصل نصیر سمیت فوج کے افسران پر الزامات دراصل ادارے پر حملہ ہے جس کے ساتھ پورا پاکستان کھڑا ہے۔

تاہم سیاسی حلقوں اور حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے تنقید کے بعد عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے بیان پر معذرت کرتے لیکن انھوں نے وزیراعظم کی تنقیدی ٹوئٹ پر جواب دیتے ہوئے اپنی الزام تراشیوں کا جواز فراہم کرتے نظر آئے۔

عمران خان نے سماجی رابطے کی سائٹ پر وزیراعظم کے ایک ٹویٹ پر اُن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ میں شہباز شریف سے سوالات پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں، جو گزشتہ چند ماہ کے دوران قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنا‘۔انہوں نے سوال کیا کہ ’بطور پاکستانی شہری کیا مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ان لوگوں کو مقدمے میں نامزد کروں جو میرے خیال سے مجھ پر قاتلانہ حملے کے ذمہ دار تھے؟ کیا شہبازشریف کی ٹویٹ کا مطلب یہ ہے کہ فوجی افسران قانون سےبالاتر ہیں یا وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتے؟ اگر ان میں سے کسی کے بارے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ کسی نے کوئی جرم کیا ہے تواس سے ادارہ کیسے بدنام ہوتا ہے؟۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید سوالات کیے کہ کون اتنا طاقتور تھا کہ پنجاب میں PTI کی حکومت کےباوجود وزیرآباد JIT کو سبوتاژ کرسکتا تھا؟ کیا شہبازشریف بتاسکتےہیں کہ 18مارچ کو میری پیشی سے پہلے والی شام خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر کیوں CTD اور وکلاء کا روپ کیوں دھار کر قبضہ کیا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں خفیہ اداروں کے لوگوں کی موجودگی اور اس کا مقصد کیا تھا، اگر شہباز شریف ان سوالات کےسچ پر مبنی جوابات دیں سکیں تو ان سب سے ایک ہی طاقتورشخص اس کےساتھیوں کاسراغ ملےگا جو سب قانون سے بالاتر ہیں۔عمران خان نے لکھا کہ چنانچہ وقت آگیا ہے کہ ہم باضابطہ اعلان کریں کہ پاکستان میں محض جنگل ہی کا قانون رائج ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما ہے۔

واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت گزشتہ برس قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری سے ختم ہوئی تھی جس کے بعد سے وہ فوج پر تنقید کر رہے ہیں جب کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر اپنی حکومت گرانے سمیت کئی الزامات عائد کرچکے ہیں۔فوج نے پہلے بھی سابق وزیرِ اعظم کے الزامات پر براہِ راست جواب دیا تھا لیکن عمران خان مسلسل فوجی افسران پر تنقید کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر عمران خان اور تحریکِ انصاف کے حامی فوج پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر کئی مقدمات بھی قائم ہوچکے ہیں۔

Related Articles

Back to top button